میں ایک عورت – جویریہ بلوچ

667

میں ایک عورت

تحریر : جویریہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اندھیری رات میں حوریہ گھر کے صحن میں بیٹھی اپنے خیالوں کی دنیا میں گم تھی۔ اسکا چہرہ آسمان کی طرف تھا اور وہ ستاروں کو ایسے غور سے دیکھ رہی تھی کہ کچھ لمحے کے لئے اسکی آنکھوں کی پلکیں تک نہیں جھپک رہی تھیں۔ وہ افسردہ حالت میں جیسے خود سے ہمکلام تھی۔

حوریہ اس گھٹن زدہ معاشرے کا حصہ بن چکی تھی، جہاں عورت کی کوئی قدر نہیں تھی۔ وہ اس گھٹن زدہ ماحول سے تنگ آچکی تھی، اس کے دماغ میں ہمیشہ سے اس موضوع پر کئی طرح کے سوالات جنم لیتے، جن میں سے ایک کا بھی اطمینان بخش جواب بھی اُسے اس ماحول میں ملنا ناممکن تھا، جہاں وہ زندگی کے ایام گزار رہی تھی۔ وہ ہمیشہ سے یہی سوچتی کہ یہاں عورت کے جنس کو اتنا کمزور کیوں تصور کیا جاتا ہے۔عورت بھی تو ایک انسان ہے، اسکا بھی وجود ہے۔ اسکو بھی اپنے اظہارِ آزاری کا حق ہے لیکن اسے چاردیواری کا حصہ بنا کر ایک ایسے سرکل میں رکھا گیا ہے جہاں وہ کھل کر اپنے لئے اور اپنے لوگوں کے لئے آواز تک بلند نہیں کرسکتی۔ ظلمت کا کالا چادر چڑھا کر وہ اپنی شناخت تک بھول چکی ہے۔ وہ ایک ایسے زندان کا حصہ ہے جہاں وہ بہت سی اذیتیں برداشت کرکے بھی خود کو بکھیرنے نہیں دیتی، اپنے ذات پر مضبوطی کا دکھاوا کرتے ہوئے بہت سی باتیں وہ اپنے دل میں چھپائے خاندان اور معاشرے کے ہر فرد کو یہی احساس دلانے میں لگی ہوئی ہے کہ اس سے زیادہ صابر اور کوئی نہیں۔

حوریہ کے آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو کے قطرے ٹپک رہے تھے، وہ خود کو زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کررہی تھی۔ کچھ دیر بعد جب اس نے خود کو سنبھالا تو اسکے دوپٹے کا پلّو آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ حوریہ اس کیفیت میں مبتلا تھی بلکہ اس نے جب سے اس گھٹن زدہ لوگوں کے درمیان ہوش سنبھالا ہے، تب سے یہ اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ حوریہ جس خاندان سے تعلق رکھتی تھی وہاں عورت کی تعلیم پر زور نہیں دیا جاتا تھا اور زیادہ سے زیادہ عورت کی وہاں بارہویں کے بعد آگے پڑھنے کو گناہ کبیرہ کے نظر سے دیکھا جاتا تھا، میٹرک اور بارہویں کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنا عورت کے حصے میں آیا ہی نہیں تھا۔ حوریہ کو یہ زندگی ہرگز قابل قبول نہ تھا اور وہ اس قسم کے جاہلیت سوچ کیخلاف تھی جسکا وہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔ جہاں عورت کو محض کنیز کی سی حیثیت حاصل ہو جہاں عورت کو محض بستر کے حد تک محدود رکھا جائے اور اسکے زبان کو تالے کی صورت میں بند کردیا جائے، اگر وہ غلطی سے بھی اپنے حق کے لئے بول اٹھے تو پھر ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہو۔ جہاں عورت کو ایک پتلا سمجھ کر اسے اشاروں پر نچانے کی کوشش کی جاتی ہو۔آخر ایسا کیوں؟ سوالات اس کے ذہن میں کسی جنگ کے میدان جیسی جنگ لڑرہے تھے.

۔۔۔حوریہ ایسے بہت سے کیوں لئے زندگی بسر کررہی تھی۔ وہ مزید پڑھ کر نسوانی حقوق کیلئے اپنی آواز بلند کرنا چاہتی تھی۔ وہ ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتی تھی، وہ عورت کو سماج میں ایک رتبہ کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی تھی، جو رتبہ اسے ہر مذہب اور قانون نے دیا ہے لیکن رتبے کو کچھ کالے بھیڑیوں کے سوچ نے ختم کر دیا ہے۔ جو مرد و زن کا فرق وہ بچپن سے دیکھتی آرہی تھی، اسے وہ برابری کے زمرے میں لانا چاہتی تھی اور ایسے مردوں کے ذہن کو اس جانب لانا تھا کہ عورت بھی معاشرے میں پیشہ ورانہ سطح پر برابری کا حق رکھتی ہے، چاہے وہ تعلیمی ہو سیاسی یا معاشی وغیرہ۔

حوریہ کا والد (دیان) جو کہ خود بھی پڑھا لکھا تھا مگر وہ سوچ جو اسے خاندان کی جانب سے بچپن سے ملا تھا اس پر تعلیم کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ دیان کے نظر میں پھر بھی عورت کی حیثیت ایک کنیز کی سی تھی کیونکہ وہ کئی بار حوریہ کے سامنے اسکی ماں (دُرّ شہوار) پر ہاتھ اٹھا چکا تھا۔ حوریہ جب یہ منظر اپنے آنکھوں سے دیکھتی تو اسکا کلیجہ پھٹنے لگتا کیونکہ اسے ایسے مردوں سے بلکل نفرت تھی جو عورت کو کمتر سمجھ کر اس پر تشدد کرے۔ اسے کبھی کبھار اپنے گھر میں پڑے ہوئے کتابوں سے چڑ آنے لگتی تھی جو کہ دیان کے رویے کو نہ بدل سکے، وہ ایسے تعلیم کو ایک دکھاوے کے سوا اور کچھ نہ سمجھتی۔

درشہوار اور حوریہ کی پٹائی اب انکے زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ درشہوار کا تعلق بھی پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اور وہ خود بھی گورنمنٹ ٹیچر تھی لیکن اسکے خاندان اور یہاں کے ماحول میں دن رات کا فرق تھا۔ دیان کے خاندان میں وہ پہلی عورت تھی، جو ملازمت کی خاطر گھر سے باہر نکلتی تھی۔ وہ تمام اذیتیں صرف اور صرف معاشرے کی وجہ سے سہہ رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مرد کتنا بھی ظالم کیوں نہ ہو لیکن قصوروار ہمیشہ سے عورت کو ہی سمجھا گیا ہے۔ دیان کئی بار کوشش کرچکا تھا کہ درشہوار اپنی ملازمت چھوڑ کر چاردیواری کا حصہ بنے مگر درشہوار کو یہ ہرگز قبول نہ تھا وہ لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ فوقیت دیتی تھی۔

درشہوار کا یہی ماننا تھا کہ عورت اگر تہذیب یافتہ، تعلیم یافتہ ہے تو اسکی نسل در نسل تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن عورت کو گھر میں بٹھا کر اس سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ نسل کی توقع رکھنا ایک ادھورے خواب کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ جب بچہ کوئی ایسا عمل کرتا ہے جس سے سامنے والے کو بُرا لگے تو مرد کی جانب سے ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ تربیت دینا ماں کا کام ہوتا ہے۔

ایک ناخواندہ عورت اپنے بچوں کو تربیت تو دے گی لیکن وہ شعور ان میں ہرگز نہیں لاسکے گی جو غلط ہوگا، وہ اس کو نہ جانتے ہوئے بھی بچوں کو اسکا سبق دیتی رہے گی، جو وہ برسوں سے خود دیکھتی آرہی ہے، وہ کبھی صحیح اور غلط کی نشاندہی نہیں کرواسکے گی۔

مغرب کا وقت تھا اور آسمان پر ہلکی سی سرخی تھی، درشہوار نے حوریہ کو پاس بلاتے ہوئے کہا حور میری جان، کیا ہُوا آج تم بہت افسردہ دکھائی دے رہی ہو؟
امی جان میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے میں نے ابو کو ہمیشہ سخت لہجے اور آپ پر ہاتھ اٹھاتے ہی دیکھا ہے۔ امی تعلیم یافتہ شخص میں ایسے عادات کا ہونا میرے تو سمجھ سے بلکل باہر ہے۔
حوریہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے، اسکی ماں بولی حور میری جان آپکے ابو ایک ایسے معاشرے اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عورت حقیر اور مرد کا رتبہ بلند تر سمجھا جاتا ہے
مگر امی، ابو تو ہر چیز سے واقف ہیں وہ تو تعلیم یافتہ ہیں پھر بھی ایسا کیوں؟
بیٹی محض دو چار کتابیں پڑھنے سے کسی کے زندگی میں فرق نہیں آتا، جب تک وہ ان کتابی باتوں پر عمل نہ کرے
امی میرا رزلٹ بھی تو آگیا ہے اور اب میں بی۔ایس کیلئے یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہوں لیکن ابو نے تو صاف صاف انکار کر دیا ہے۔
نہیں حور تم آگے پڑھوگی، جو خواب تم نے اپنے آنکھوں میں سجائے ہیں اور جو خواب میں دن رات تمہارے مستقبل کے حوالے سے دیکھتی ہوں تمہیں انہیں پورا کرنا ہے۔ میری بیٹی اگر خاندان کے کسی لڑکی نے یونیورسٹی کا رخ نہیں کیا تو تم کروگی آنے والی نسل کی بیٹیوں کیلئے تمہیں ایک مشعل راہ کا کام کرنا ہے۔ جو لڑکی کی تعلیم کو فضول سمجھتے ہیں ان کے ذہنوں سے یہ بات نکالنا ہے اور تمہارے اس مثبت قدم سے ہوسکتا ہے کہ دوسرے لڑکیوں کیلئے بھی انکے، تعلیمی دروازے کھل جائیں، تمہاری طرح خاندان کے بہت سے لڑکیاں آگے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، مگر جو سلسلہ وہ دیکھتے آرہے ہیں تو وہ کچھ کہے بنا ہی انکی سارے خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور بند پنجرے میں پرندے کی مانند ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اس بند پنجرے کی وجہ سے پرندے اڑان کی صورت اختیار کرتے ہیں کیونکہ جس پرندے کو ہمیشہ ہی سے قید و بند کا حصہ بنایا جائے تو ایک دن وہ راہِ فرار اختیار کرلیتا ہے۔ اسکے برعکس جس پرندے کو نرمی سے رکھا جائے اسے پنجرے سے نکال کر باہر سیر کرایا جائے تو وہ ایسا باغی نہیں بنتا۔

حور تمہیں اس معاشرے کے لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ عورت کا بھی ایک وجود ہے۔ تمہیں بطور “ایک عورت کردار ادا کرنا ہے” میری بیٹی حالات چاہے جیسے بھی ہوں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ جو حقوق ہمیں میسر ہے انکو مثبت استعمال میں لاکر اپنے لئے اور مظلوموں کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں جس کو سائنس اور ٹیکنالوجی،علم و تخلیق کا دور کہا جاتا ہے اس دور میں پسماندہ اور دقیانوسی سوچ کیساتھ معاشرتی ترقی انتہائی مشکل ہے، خواتین کو بھی اپنے حقوق کیلئے آگے آنا چاہیے، وہ خود کو کمزور تصور کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں اور تخلیقی کردار کو آگے بڑھ کر اجاگر کریں۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی، حوریہ نے دروازہ کھولا تو دیان غصے کی حالت میں گھر میں داخل ہوا جب درشہوار نے دیان کو پانی کا گلاس پیش کیا تو وہ پانی کا گھونٹ اپنے گلے سے جیسے ہی پار کرتا اسکی دہشت زدہ نظریں حوریہ پر پڑتی جو کہ اس سے تھوڑی ہی فاصلے پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ آج اخبار میں دیان نے حوریہ کا ایک اور آرٹیکل پڑھا تھا جس میں حوریہ نے عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بیان کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ عورت کو موٹیویٹ بھی کیا تھا۔

جب درشہوار نے دیان سے اسکے غصے کی وجہ پوچھنا چاہا تو دیان نے یک دم گلاس حوریہ کی جانب پھینکا، جس سے حوریہ کے پاؤں سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ درشہوار اس حرکت کیلئے دیان کے سامنے بول اٹھی کہ تعلیم کا حق حوریہ کو ہے جس کو وہ حاصل کرکے ہی رہے گی۔
معاشرے کی حقیقت کو لاکھ چاہتے ہوئے بھی نہیں چھپا سکتے۔ ظلم ہر صورت میں ظلم ہی ہے وہ مرد ناکام ہے جو عورت پر ہاتھ اٹھائے آپ حوریہ کے ہاتھ سے قلم تو چھین سکتے ہو مگر دوسرے روشن خیالوں سے نہیں جن کے الفاظ عورت کے حقوق کیلئے اور عورت کی معاشرتی مقام و مرتبے کے لئے بولنے اور لکھنے سے نہ ہی گھبراتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔عورت کو برابری کا درجہ دینے والے مرد بھی ہمارے معاشرے میں ہیں جو ہر ادوار کے ظلم کو بطور قلم سامنے لاچکے ہیں اور لارہے ہیں۔

لیکن دیان صاحب آپ نے جس معاشرے میں جنم لیا ہے، اس میں عورت ہمیشہ سے جبر، تشدد، غلامی اور استحصال کا شکار رہی ہے۔ عورت کا وجود ازل سے ہے اور وجود کو دفنانے، والے اسے زنجیروں سے جکڑنے والے ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔

دیان ان باتوں کو سن کر اپنے روایتی اندار میں جوکہ انکے لئے باعثِ فخر ہوا کرتا ہے، درشہوار کو طلاق دے دی اور اسی وقت درشہوار اور حوریہ کو گھر سے نکال دیا۔ رات کے سناٹے اور اندھیرے نے درشہوار اور حوریہ کے حوصلے کو مدہم پڑنے نہ دیا۔

درشہوار اپنے بھائی کے گھر گئی، جہاں انہوں نے دو ماہ گذارے مگر ایک طلاق یافتہ عورت کا بوجھ اور بھی اس معاشرے کے لوگوں پر دگنا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کے آئے روز کے طعنوں سے درشہوار نے اپنے اور حوریہ کیلئے ایک الگ کرائے کے گھر کا بندوبست کیا اور یوں حوریہ نے تعلیم جاری رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ عورت کے موضوع پر مزید لکھتی گئی اور ساتھ ساتھ عورت کی آواز بھی بنتی گئی۔ جب حوریہ گریجویٹ ہوئی تو اس نے فوراً بعد سی ایس ایس کی تیاری شروع کردی۔ تنگ نظر معاشرے میں اکیلے یوں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہونا بہت حوصلہ و ہمت مانگتا ہے لیکن درشہوار ہمیشہ ہی سے حوریہ کے لئے ایک بہادر ماں اور ایک باپ کا کردار ادا کیا ۔اس نے حوریہ کو کبھی یہ محسوس نہیں کرایا کہ اس کے پاس باپ کا سہارا نہیں حوریہ کا حوصلہ مزید بڑھتا گیا۔

حوریہ نے جب اپنا رزلٹ دیکھا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی اس نے صوبے بھر میں سی ایس ایس کے امتحان میں پہلی پوزیشن اپنے نام کرلیا۔ وہ دوڑتی ہوئی درشہوار کے پاس گئی اور اسے گلے لگایا۔۔۔

۔۔۔امی جان آج میں بہت زیادہ خوش ہوں
ارے بھئی کیا ہوا حور، جو تم اتنا خوشی سے کھلکھلا رہی ہو
امی میں نے صوبے بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے
درشہوار کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے حوریہ میری بچی دیکھو آج تم نے وہ کر دکھایا جو آج تک اس شہر، اس معاشرے اور اس خاندان میں کسی اور عورت نے نہیں کیا۔ آج تم نے میرا سر فخر سے بلند کیا اور یہ ثابت کردیا کہ عورت سب کچھ کرسکتی ہے، وہ کمزور، کمتر نہیں اور نہ ہی مظلوم ہے۔ عورت خود کو مظلوم خود ہی بناتی ہے، جب وہ ظلم کا شکار ہو کر اپنے حقوق سے ناواقف ہونے کی صورت میں خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔عورت کسی بھی صورت معاشرتی و سماجی حیثیت سے کمتر نہیں بلکہ بالاتر ہے۔ اس سماجی سوچ کو جو کہ اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکی ہے کہ عورت گھر کا ہی زیب ہے باہر کی دنیا میں اسکا کوئی عمل دخل نہیں تو ایسی سوچ رکھنے والے تمہاری کامیابی کے بعد شاید اپنے رویوں میں تبدیلی لاسکیں کیونکہ ترقی تبدیلی کے بغیر ناممکن ہے اور تبدیلی انسان کے اندر تعلیم لاتی ہے۔

ابھی تک تمہیں اور بھی آگے بڑھنا ہے اس قوم کے لئے اور عورت کی اس آواز کو دنیا کے ہر کونے تک پھیلانا ہے کہ عورت محض ایک پتلا نہیں، وہ قدیم زمانے سے اب تک معاشرے میں نسوانی کردار ادا کرتی آرہی ہے۔

کبھی حضرت سمعیہ کی شکل میں شہادت کا رتبہ پاتی ہیں، تو کبھی لیلیٰ خالد کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتی ہیں، تو کبھی جمیلہ جزائری کی صورت میں تو کبھی ماری کیوری کی صورت میں لوگوں کے لئے دریافت کی صورت میں اور کبھی سخت دشواریوں کے باعث اپنے منزل تک پہنچنے والی حوریہ کی صورت میں یہ ثابت کردیا کہ میں ایک عورت معاشرے کا ناگزیر اہم کردار ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔