قحط الرجّال اور تحریک بلوچستان
تحریر : حکمت یار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
” قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجّال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ،حیات بے مُصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال”
یہ جُملے مشہور ادیب مُختار مسعود کی کتاب “آوازِ دوست” کے دوسرے حصے جس کا نام “قحط الرجال ” ہے میں موجود ہے۔ اگر میں ان جملوں کا اطلاق اپنے زندگی میں موجود (اب تک) تحریک بلوچستان کے حوالے سے کروں۔ تو شاید بُرا نہ ہوگا۔ نواب بگٹی کی شہادت کے وقت میں گو کہ پانچ چھ سال کا تھا۔ مگر اتنا یاد ہے کہ وہاں عوام کا جم غفیر اور بلوچستان بلوچستان کے نعروں کے باوجود محض حشرات الارض ہی کا ایک گروہ نظر آتا تھا یا پھر دوسری جانب ریاستی تشدد ہے، ایک حشر کا سماں برپا تھا۔ دن گُزرتے گئے اور چند نوجوان جنہوں نے قحط الرجّال کی کمی کو پُورا کیا تھا۔ آہستہ آہستہ قابض ریاست کے ہاتھوں لاپتہ ہوتے گئے یا پھر وطن کے مٹی میں خُون بہا کر امر ہوگئے۔ جب بھی کسی نوجوان کی شہادت یا جبری گُمشدگی کا ذکر آتا۔ تو لاشعور میں یہ کہانی گھوم پھر کے آنکھوں کے سامنے چھا جاتا کہ ابھی تک وہ مقام نہیں آیا جہاں مکمل نا امیدی و مایوسی ہو۔ رفتہ رفتہ قحط الرجّال نے ہماری طرف قدم بڑھادیئے۔ غُلام محمد،لالا منیر اور شیر محمد کی شہادت کے علاوہ بابا مری کی موت سے قحط الرجّال بلوچستان میں اپنے عروج کو پُہنچ گیا۔ جہاں سے کمسنی کی وجہ سے میں تحریک بلوچستان سے مایوس ہوگیا۔ اور آزادی کا نام تک یاد نہ رہا کہ یہ کونسی بلا کا نام ہے۔ نو آبادیاتی نفسیات کے مُطابق میرا ذہن مذہب کی جانب چلا گیا۔ جہاں کالعدم سپاہ صحابہ کے علاوہ محاذ کشمیر کے کارکنوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہُوا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم “جیش محمد ” کے نام سے جانتے ہیں۔ کشمیر کاز کیلئے پمفلٹ اور “القلم” اخبارات کے علاوہ مسعود اظہر کے تقاریر لوگوں تک پُہنچانے کا کام میرا تھا۔
خیر سکول سے رُخصتی کے ساتھ ہی کالج میں قدم رکھا تو قومی جذبہ خودبخود اُبھر کر سامنے آیا۔ اور ذوقِ مطالعہ نے اسے مزید تقویت دی۔ دو ہزار اٹھارہ میں ریحان کے فدائی شہادت کے بعد تحریک پر یقین عقیدے کی حد تک ہُوا۔ بعد میں تحریک بلوچستان کا مُطالعہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔ بلوچ تحریک آزادی کے دونوں محاذوں (جو دونوں بلوچ سرزمیں پر ہی موجود ہیں، باہر والے نہیں) میں سے ایک محاذ یعنی مُسلح جدوجہد میں قحط الرجّال کھبی بھی سامنے نہیں آئی۔ وقت حالات کے مُطابق اپنا کام جاری رکھا۔ مگر دوسرا محاذ جنہیں ہم طُلبہ تنظیمیں کہتےہیں۔ وہ آزاد کے نُوجوانوں کی جبری گمشدگی کے بعد تقریباً دو ہزار چودہ سے ہی قحط الرجّال کا شکار ہے۔ اکّا دُکا پائے جاتے ہیں۔ تو وہ بھی ریاستی گُمشدگی کا شکار بنتے ہیں۔ اب بلوچ طلبہ تنظیموں کی بُہتات ہے اور طلباء کی بھی۔ مگر گُم راہ ہیں۔ منزل کا اتا پتا ہی نہیں۔ جو جی میں آئے کرلیں۔ جو راستہ پارلیمانیوں کا ہے۔ وہی اختیار کرلی۔ اب اس طلبہ گراؤنڈ میں قحط الرجّال ہے۔ جو بظاہر موجود ہیں اُنکی اہمیت حشرات الارض سے زیادہ کُچھ بھی نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔