جامعہ بلوچستان اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پہ لایا جائے۔بی ایس اے سی

182

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان یونیورسٹی ہراسگی اسکینڈل میں محض سیکورٹی گارڈ کو قصوروار ٹھہرانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران صرف ایک سیکورٹی اہلکار کو مورودالزام ٹھہرانا انصاف کا تقاضا نہیں بلکہ اصل ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ادارے میں جنسی حراسگی جیسے حساس مسئلہ پر یونیورسٹی انتظامیہ کی عدم توجہی اور غیر سنجیدگی کا عنصر سمجھ سے بالاتر ہے گھناؤنی حرکتوں میں یونیور سٹی انتظامیہ کی شمولیت تعلیم دشمنی کا شاخسانہ ہے جسکے خلاف طالب علم تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے منظم کئے اور مطالبہ کیا کہ ملوث ملزمان کو سزا دی جائے مگر انتظامیہ کی بے اعتناہی طالب علموں کے مستقبل پہ سوالیہ نشان ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ چونکہ یہ معاملہ بلوچستان یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے اس لئے یہ امید کی جارہی تھی کہ سینڈیکیٹ کے تمام ممبران بالخصوص اساتذہ اور اے ایس اے کے اراکین اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے اس کے اسباب اور عوامل کو منظر عام پہ لائیں گے مگر یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے جانب سے محدود حد نگاہ سے تحقیقات کرنا اور محض ایک اہلکار کو زمہ دار گرداننا دیگر ملزم کی جرائم پر پردہ پوشی کرنے کے مترداف ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ اپنے نوعیت کے حساس ترین اسکینڈل کی وجہ سے طلباء ذہنی کوفت کا شکار تھے مگر موجودہ فیصلے نے طالب علموں کے پریشانی میں مزید اضافہ کردیا ہے بلوچستان ہائیکورٹ اپنے فیصلے انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھ دیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونماء نہ ہو۔