شعوری فیصلہ جذباتیت کا محتاج نہیں – عبدالواجد بلوچ

460

شعوری فیصلہ جذباتیت کا محتاج نہیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے جب کوئی شعور و کمٹمنٹ سے لیس کسی جدوجہد کو محض اپنی خوشنودی اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے بچگانہ، غیر شعوری اور جذباتی پن کا نام دے، گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان سے دور جلاوطنی کی زندگی گزارنے سے کئی چیزیں سیکھ چکا ہوں اور محسوس کرچکا ہوں وہ یہ کہ وطن کی خوشبو، اپنوں سے دوری، آئے روز چیختا بلکتا سسکتا بلوچستان، ماؤں کی فریاد آہیں یہ وہ شئے ہیں جنہوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ کچھ ہے جس سے یہ چیزیں رونما ہورہے ہیں، یقیناً وہ شئے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں وہ امر بلوچستان کی آزادی اور پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف کھلی جنگ ہے جس کا تسلسل گذشتہ بہتّر سالوں سے جاری ہے۔

گذشتہ دن مجید بریگیڈ کے جانباز سنگت شہید سلمان حمل، شہید شہزاد، شہید تسلیم اور شہید سراج بلوچ نے جب اپنے آپ کو بلوچ سرزمین کی اس جاری جنگ کے لئے فدائی دستے کے لئے وقف کیا، مَیں نہیں سمجھتا کہ ان کا یہ عمل کسی جذباتی پن، دھوکہ دہی یا بہکاوے میں آکر فیصلہ تھا بلکہ جب سے انہوں نے بلوچ قومی تحریک کے اندر سیاسی و جمہوری انداز میں جاری جدوجہد کا حصہ بن کر اپنا کردار نبھانا تھا انہوں نے یہ فیصلہ کرکے بلوچ مسلح دستوں میں شمولیت اختیار کی حالانکہ شہید سلمان حمل تو دورانِ تعلیم بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ممبر تھا لیکن ایک سوچ تھی، ایک فکر تھا، نظریہ تھا، جس سے وہ شعوری صورت میں مسلح دستے کا حصہ بنا گو کہ یہ سچ ہے کہ اس وقت ان کی عمر پڑھائی کی تھی لیکن ریاستی جبر عمر کے معیارات کو نہیں دیکھتا۔ جب جب ریاستی ظلم بڑھتا ہے تب تب ایک مضبوط سوچ سے لیس نوجوان بلوچ تحریک کا حصہ بن جاتا ہے۔ مجید بریگیڈ کے ساتھیوں کی قربانیوں کو محض اپنے بغض و عناد کے لئے جذباتی پن کا نام دے کر ہم ریاستی بیانیے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

مَیں بذات خود ایک سیاسی کارکن یہ کبھی نہیں کہتا کہ سوشل میڈیا میں موجود وہ تمام دوست جو بالخصوص یورپ میں رہ کر سیاست کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے چیمپئن بن کر بلوچ نوجوانوں کی جاری جدوجہد کو جذباتی پن کا نام دے کر اپنا کردار ادا کررہے ہیں وہ بلوچ تحریک کے حامی نہیں ہیں یا وہ بلوچ مسلح جنگ سے خائف ہوچکے ہیں ہاں البتہ مَیں یہ ضرور کہونگا کہ اس سوچ کے مالک وہ تمام سوشل میڈیا سرمچار یا انسانی حقوق کے مایہ ناز چیمپئنز از خود اپنی ناکامی کو ناجائز جواز فراہم کرنے کے لئے آئے روز کسی کنفیوژن کا شکار ہوکر اپنے آپ کو متنازعہ کرنے کی سعی کررہے ہیں، اُن کا دلیل یہ ہے کہ فدائی جیسا عمل ہماری جاری جدوجہد کو عالمی سطح پر نقصانات سے دوچار کرسکتا ہے اس سے ہمارے جاری محنت پر بلوچ جہدکار پانی پھیر رہے ہیں تو مَیں ان حضرات سے کہنا چاہتا ہوں کہ جناب بلوچ جہدکار جب بندوق اٹھاتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے سیکرٹری جنرل یا لندن امریکہ میں بیٹھے پالیسی ساز ہمیں راستہ دکھائیں گے تب جا کر ہم ان کے مطابق یہ جنگ جاری رکھیں گے، یہ بات طے ہے کہ یہ جنگ جو گذشتہ بہتّر سالوں سے ریاستی قبضہ گیریت کے خلاف جاری ہے جو از خود UNO کے قوانین کی پاسداری کررہا ہے لیکن بدقسمتی سے آج کل دنیا میں Capitalism کے اثرات اتنے بڑھ چکے ہیں جس سے دنیا یہ نہیں دیکھتا کہ کہاں کس طرح مذکورہ اقوام یا ملک کسی نسل کشی یا Genocide کا شکار ہے بلکہ انسانی قتال یا ان کا خاتمہ یا دنیا کو جنگوں میں جھونکنے کا عمل ہی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے اور یقیناً یہ عمل آج کے جدید دور میں اور مستقبل قریب یا بعید میں مزید شدت اختیار کریگا۔
اب بات آتی ہے بلوچستان میں جاری اُس جنگ کی جس کا بنیاد اس نقطے پر ہے کہ پاکستان کی قبضہ گیریت کا خاتمہ اور بلوچستان کی آزادی کی بحالی گیارہ سال پہلے ہمارے ہاں یہ تاویلیں نہیں تھیں کہ مسلح جدوجہد ہمارے جمہوری اعمال کے آگے رکاوٹیں پیدا کررہی ہے، ہم وہی لوگ ہیں جو پہلے تھے، ہمارے سیاسی تربیت کا سلسلہ بھی وہی تھا، جس سے ہم دس گیارہ سال پہلے سیکھ چکے ہیں، اب اچانک ہمارے اندر انسانیت، انسانی حقوق کے علم برداریت کا جنّ جاگ چکا یہ اچانک تو نہیں یقیناً وجہ صرف ایک ہے کہ ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہ کر صرف ایک نقطے پر اکتفا کرنا اور اپنی زندگی بنا کر خوشحال رہنا جب مقصد ہو تو یہی صورت حال جنم لیتا ہے.

اُن لوگوں چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا ہوگا جو اُن شہداء کے نام پر یورپ، امریکہ، لندن میں اپنا اسائلم کیس لڑتے ہیں ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جن کا ایک قطرہ پسینہ بھی بلوچ تحریک آزادی کے لئے نہیں گرا ہوگا اور وہ یورپ میں بیٹھ کر Judgmental ہورہے ہیں کہ بلوچ نوجوان استعمال ہورہے ہیں. ہاں یہ بات سچ ہے اگر بالفرض وہ لوگ جو اس عمل کے مرتکب ہورہے ہیں جو اس نیت پر کہ بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرکے اپنے مفادات صرف حاصل کرنا ہے، اُن کا اور آپ لوگوِں کا جو آئے روز رات دیر PuBG کھیل کر صبح دیر اٹھ کر موبائل کو ہاتھ لئے اپنی زہنی تسکین کے لئے تاویلیں تلاش کرتے ہو ایک برابر ہیں۔.

بلوچ نوجوانوں کی اس شعوری جدوجہد کو محض جذباتی پن کا نام دے کر راہ فرار اختیار کرنے والے ایک لمحہ یہ فکر کرلیں کہ انہوں نے گزشتہ سات آٹھ سالوں میں کیا تیر مارا ہے، بین الاقوامی دنیا میں؟ مہینے میں پانچ مرتبہ ریاست کے پالے پنجابیوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر کنفیوز ہونے والے عظیم سیاست دانوں جب ایک سرمچار کو ان کی ماں بلوچستان کے بیرک کے ساتھ یہ کہہ کر رخصت کرتی ہے کہ بیٹا جا اس دھرتی ماں کی حفاظت کر جس کی حرمت دشمن نے پامال کی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اس بچے کو مَیں اس جنگ میں کیوں دھکیلوں جس کو نو مہینے پیٹ میں رکھ کر ہزارہا تکلیفیں جھیلنے ہیں بلکہ وہ عمل اس شعور کی بالادستی ہی ہے جس سے انہیں اپنی غلامی کا احساس ہوتا ہے.

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں دو ہزار بارہ کو اذیت گاہوں میں تھا تو دوران تفتیش ایک پنجابی آفیسر نے مجھے یہ بات کی بلکہ مجھے کنونس کرنے کی کوشش کی تم لوگوں کو یہ نام نہاد سردار وغیرہ استعمال کررہے ہیں تم لوگ تعلیم یافتہ ہو اچھی زندگی گزار سکتے ہو وغیرہ وغیرہ آج وہی عمل ہمارے نادان سیاسی اور انسانی حقوق کے چیمپئنز جانے یا انجانے دہرا رہے ہیں.گو کہ رواں اس تحریک کے اندر ہزارہا کوتاہیاں، کمزوریاں، خامیاں ہیں جن کا ایک منظم اور مضبوط لائحہ عمل سے ہی خاتمہ ممکن ہے نا کہ حُب علی اور بغضِ معاویانہ رویے سے، وہ مسائل حل ہوپاتے ہیں، ہم نے گذشتہ نو سالوں سے چیخا چلّایا اور آج بھی اس موقف پر کاربند ہیں کہ اداروں کو ایک دوسرے سے متصادم نہ کیا جائے جب جب معاملات کو صرف بغض اور پسند نا پسند کی بنیاد پر چلاؤ گے تب تب حالات یہی ہونگے جو ہیں کہ سوشل میڈیا میں بیٹھ کر زہنی تسکین کی خاطر محض اپنی عناد نکالنے کے لئے ہورہے ہیں. لہٰذا اب وقت کا تقاضا یہی ہے کہ سنجیدگی سے موجود ان تمام پیچیدگیوں کا حل نکالنے کے لئے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہوگا جس سے سوالات جنم لے چکی ہیں لیکن ایک پروپر چینل سے نا کہ سوشل میڈیا میں بیٹھ کر زہنی تسکین کے لئے خود کو اور دوسروں کو متنازعہ بنا کر پوسٹ پہ پوسٹ کرنے سے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔