بلوچ کے ہاتھ میں قلم اور کتاب بھی برداشت نہیں
تحریر: ایڈوکیٹ حنظلہ جبین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ روز بلوچستان ہائیکورٹ میں جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس اعجاز سواتی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جب عدالت برخاست کرنے کے اعلان کے ساتھ عدالت میں موجود وکلاء اور سائلین سے مخاطب ہوکر یہ کہا کہ اگر کوئی فوری نوعیت کا کیس ہے تو بتایا جائے تو ایک شخص اٹھا اور بینچ کے سامنے جاکر کہا Your Lordships میرا کیس نومبر 2018 سے زیر سماعت ہے جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی مقدمے کو جلد از جلد نمٹانے کے احکامات دے چکا ہے، تو جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ٹھیک ہے آپ کا کیس سنتے ہیں. وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہورہا تھا اور عدالت نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل کو بلایا. مقدمے میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے درخواست گزار جس نے اپنا تعارف کرنے کے بعد مقدمے کی پیروی خود کی اور مقدمے کے تفصیلات بتاتے ہوئے درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ان کا تعلق خضدار کے ایک غریب بلوچ فیملی سے ہے اور اس نے 2011 میں پی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد ٹریننگ مکمل کرکے خضدار میں پہلی پوسٹنگ بحیثیت ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تعنیات ہوئے، جہاں پر انہوں نے انتہائی ایمانداری, مخلصی اور جانفشانی سے عوام کے مفاد میں کام کیا، جس کی وجہ سے علاقے سے منتخب ایم پی اے اور صوبائی حکومت میں شامل وزیر ان سے ناراض ہوگئے اور ان کو اپنی پہلی پوسٹنگ کے صرف تین ماہ میں خضدار سے تبادلہ کروالیا لیکن بعد میں عوامی دباؤ میں حکومت کو تبادلہ واپس لینا پڑا تاہم کچھ ماہ گزرنے کے بعد متعلقہ وزیر نے ان کو او ایس ڈی بناکر 2018 تک اپنی حکومت کے پورے عرصے میں درخواست گزار کو مختلف طریقے سے انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے رہے، جس میں درخواست گزار کے گھر پر کفن پھینکنے, ان کی کردار کشی, ان پر غنڈوں کے زریعے حملہ کروانے, جان سے مارنے کی دھمکی و دیگر ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ جب ان واقعات سے درخواست گزار کو ڈرایا دھمکایا نہیں جاسکا تو انہیں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کیا جاتا رہا اور ان کو دیگر مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا رہا.
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ نو سال کے مختصر سروس میں ان کو اٹھارہ مرتبہ ٹرانسفر کیا جاچکا ہے اور ایک بھی جگہ پر ان کو تین سالا Tenure پوری کرنے نہیں دیا گی ہے اور وہ ابھی تک اپنی ایمانداری اور قانون کے مطابق عوام کی مفاد میں کام کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں اور شدید حکومتی انتقامی کاروائیوں کا سامنا کررہے ہیں اور انہوں نے داد دسی کے لے ہر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے لیکن حکومت عدالتی احکامات کے باوجود ان کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے. درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ایمانداری, عوام کے مفاد میں کام کرنے اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں ان کو بلاوجہ 8 ماہ معطل رکھا گیا, ان کی پروموشن موخر کی گئی, ان کی انسانی, بنیادی و آئینی حقوق پامال کیے گئے, ان پر دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ ملازمت چھوڑ دے, ان کو کام سے روکا گیا اور شدید زہنی ازیت دی جارہی ہے کیونکہ وہ خود کرپشن کا حصہ نہیں بنتے اور ہمیشہ عوام کے مفاد میں آئین وقانون کے مطابق بغیر کسی دباؤ کے کام کرتے ہیں.
درخواست گزار کے دلائل جاری تھے کہ جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے ان کو روکا اور کہا کہ آپ کو ہم کیا انصاف دے سکتے ہیں جب ملک میں ہزاروں لوگ غائب ہیں, کہیں لوگوں کی لاشیں مل چکی ہیں, آئین اور قانون کے مطابق کوئی کام نہیں ہوتا. آپ یا نظام کے ساتھ چلنا سیکھ لو یا استعفٰی دے کر سیاست کرلو. جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ وہ بھی کسی دور میں انقلابی ہوا کرتے تھے مگر یہاں کچھ نہیں بدلنے والا، اس لے خود کو اذیت میں مت ڈالو کیونکہ تم حکومت کے ساتھ مقدمہ بازی کرکے اپنا سر پہاڑ سے ٹکرارہے ہو. جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ایسے کتنے ایماندار افسران جن کی لاشیں ملی ہیں. انہوں نے درخواست گزار کو کہا کہ تمھارا بھی ایک دن وہی انجام ہوگا یا تم کو اتنا تنگ کیا جائے گا کہ تم مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر فطری موت مرجاوگے.
درخواست گزار نے کہا کہ وہ آئین, قانون ,جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی ایمانداری, قابلیت پر اعتماد اور اپنے پیشے سے محبت کرتے ہیں اور ان پر نہ تو کرپشن کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی مس کنڈکٹ کا کوئی الزام ہے. اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے. تم کو حکومت اور بیوروکریسی جس طرح شدید زہنی ازیت دے رہی ہے وہ تم عدالت میں آکر ہم کو دیتے ہو کیونکہ تمھارے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر ہم کچھ نہیں کرسکتے اس لے جب تم اپنے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کو ہمیں بتاتے ہو تو ہم بھی ازیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم کچھ نہیں کرسکتے. اس پر درخواست گزار نے کہا کہ آئین پاکستان شہریوں کو اکیس بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ان بنیادی حقوق کا پاسبان عدلیہ ہے تو جواب میں جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ یہ باتیں صرف کتابی حد تک اچھی لگتی ہیں مگر عملی طور یہ کچھ بھی نہیں.
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ تمھارا کیس ہرجانے کا بنتا ہے اور ہم آرٹیکل 199 میں آپ کو ہرجانہ نہیں دے سکتے، آپ بہتر ہے حکومت پر ہرجانے کا دعویٰ کرلو. اس پر بلوچستان ہائیکورٹ نے ایک گھنٹے پر مشتمل طویل دلائل سننے کے بعد مقدمے کا فیصلہ محفوظ کرلیا. مگر اس مقدمے میں جج صاحبان کی ریمارکس سن کر ایک تو مجھے وکالت کے پیشے میں قدم رکھنے پر پشیمانی ہورہی ہے تو دوسری طرف میں نے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ معاشرے میں کتنا شور ہے کہ بلوچ نوجوان اپنا تعلق قلم سے جوڑ لے اور تعلیم میں بلوچ کی ترقی مضمر ہے مگر ایک غریب بلوچ جو سرکاری سکول سے فارغ اور سالوں کی دن رات محنت و مشقت کے بعد جب پی سی ایس کا امتحان پاس کرلیتا ہے تو اس بد بودار اور گلے سڑے نظام میں ان کو اس طرح شدید انتقامی کاروائیوں, ذہنی کوفت, انصاف کی عدم فراہمی اور قانونی تحفظ سے محروم کیا جاتا ہے اور وہ عدالتوں میں ذلت اور کرب برداشت کرکے تھوکر کھا رہے ہوتے ہیں. اس دھرتی کے وارث قلم, تعلیم, امن کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے باوجود کیوں زلت اور ازیت کا سامنا کررہے ہیں اور ان کو انصاف کی امید کے بجاے ان کے زخموں پر یہ کہ کر نمک پھیر دی جاتی ہے کہ تمھارا بھی ایک دن فلاں کی طرح لاش مل جائے گا. کہیں طاقت پر قابض ادارے اور سردار بلوچستان کے نوجوان کی قلم, علم, دانش اور منطق سے بھی خوفزدہ تو نہیں اور کہیں یہی طاقتیں بلوچ سے قلم اور کتاب بھی چھین کر انہیں دیوار سے لگا تو نہیں رہے ہیں اور بلوچ کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ تم کتنا بھی تعلیم حاصل کرلو مگر اس معاشرے میں تمھیں امن, سکون, اچھی زندگی, قانون کی تحفظ اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق نہیں ملے گا.
تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملنا مشکل ہے جہاں کسی قوم کو اپنے ہی دھرتی پر عزت اور سکون سے زندگی گزارنے سے انکار کرکے ان کے لے زندگی مشکل اور موت آسان کردی گئی ہو. بلوچ آج تاریخ کے اس دہرائے پر کھڑی ہے جہاں دولت سے مالا مال سرزمین کا مالک ہونے کے باوجود بلوچ اپنے ہی دھرتی پر غلام سے بھی بدتر زندگی گزار رہی ہے اور جہاں موت سستی مگر زندہ رہنا مشکل بنا دیا گیا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔