بلوچ سٹوڈنٹس ایک بار پھر گرفتار
تحریر: دانیال مینگل
دی بلوچستان پوسٹ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں نے ہر ممکن بدترین دن دیکھے، چاہے مسنگ پرسنز کی شکل میں ہو یا بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں، اب بلوچوں کو ایک اور ظلم کی داستان کرونا وائرس کے شکل میں دیکھنا پڑرہا ہے۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے پورے پاکستان کے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹییز کو بند کر دیا گیا ہے، یہ وبا تیزی سے پورے ملک میں پھیل گیا، اور اس کے نتیجے میں “ایچ ای سی” نے تمام یونیورسٹیز کو باقاعدہ آن لائن کلاسز شروع کرنے کا حکم دیا اور یوں تمام یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسز شروع کردیئے، یہ فیصلہ تو بہت ہی بہترین فیصلہ تھا بلوچستان کے تمام سٹوڈنٹس کے لئے جو مکران،خاران، کوئٹہ، خضدار، گوادر، مند، پنجگور یا بلوچستان کے دوسرے شہروں سے اسلام آباد، پنجاب، سندھ یا کے پی کے پڑھنے کے لئےجاتے تھے، جن کے والدین اپنے سینے پر پتھر رکھ کر اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے خود سے دور بھیجتے تھے۔ اب یہ تو کامن سینس کی بات ہے، جس شہر میں انٹرنیٹ ہے ہی نہیں وہاں سٹوڈنٹس آن لائن کلاسز کیسے لیں؟
مگر اب اس وبا کا حساب بھی تو بلوچ سٹوڈنٹس کو ہی چکانا تھا کیوںکہ آن لائن کلاسز کو اٹینڈ کرنے کے لئے انہیں انٹرنیٹ کی ضرورت ہے جو بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں دور دور تک نظر نہیں آتا، وہاں انٹرنیٹ تو دور کی بات عام سگنلز کے لئے پہاڑوں کارخ کرنا پڑتا ہے، اب اس فیصلے کے خلاف بلوچ سٹوڈنٹس نے پرِامن مظاہرے شروع کئے اور مطالبہ کیا کہ “آن لائن کلاسز کےفیصلے کو واپس لیا جائے کیونکہ اُن کے علاقوں میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکتے اور ان کےاٹینڈس مس ہو رہے ہیں وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں”
اس فیصلے کے خلاف شال (کوئٹہ) میں بلوچ سٹوڈنٹس نے تین دن کا پرِامن احتجاجی کیمپ کا انعقاد کیا اور آج تین دن پورے ہوئےتو وہ اپنا پرِامن احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے ریلی کے صورت میں کیمپ سے بلوچستان ہائی کورٹ تک جا رہے تھے کہ سرکار نےپولیس کو آرڈر دی کہ انہیں وہاں تک پہنچنے نہیں دیا جائے اور اس طرح پولیس نے ہماری بہنوں کے دوپٹے کو پکڑ کر اُنہیں شال(کوئٹہ) کے سڑکوں پر گھسیٹا، ہمارے بھائیوں پر بدترین تشدد کیا گیا، یوں بلوچ طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا گیا، اس لئے کیوںکہ وہ تعلیم چاہتے ہیں، آن لائن کلاسز کے لیے حکومت نے سہولت دینے کے بجائے سٹوڈنٹس کو گرفتار کروایا، جب بھی سٹوڈنٹ حقوق کے لیے نکلتے ہیں تو یہ جناب انہیں یوں سڑکوں پر گھسیٹ کر گرفتار کر لیتے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کے ہماری بہنوں کو گرفتار کیا گیا، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا، یہ پہلے بھی ہو چکا یہ آئندہ بھی ہوگا، بلوچوں کے قسمت میں یہ سب روزہ اول سےلکھا ہے۔ تعلیم دوست بلوچ سٹوڈنٹس کی اپیل ہے کہ یہ حکومت تمام بلوچ سٹوڈنٹس کو گرفتار کر کےانہیں موبائل اور لیپ ٹاپ فراہم کریں تاکہ وہ تھانے میں اپنے آئن لائن کلاسز اٹینڈ کرکے اپنا تعلیم جاری رکھ سکیں۔
آخر میں ایک سوال اس سلطنت کے بادشاہوں سے “بلوچستان کو آخر اس حد تک کیوں پہنچایا جا رہا ہے کہ بلوچ سٹوڈنٹس قلم چھوڑ دیں”؟
ای مِش رنگ مَش رنگ دے رنگ ماہ رنگ
ای گودی وطن نا وطن کل کنا رنگ
حیا، ننگ، سگ، حوصلہ، جوزہ، ہمت
کنے تسُنے بِلسُمی وُ خُدا رنگ۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔