کہور کا ظہور
تحریر : آصف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں ہمیشہ تقسیم در تقسیم، ٹھوٹ پھوٹ ہی کے ذریعے قوم کو متحد کرنے کا سلوگن دیا گیا ہے، جب بھی کوئی سیاسی تقسیم کا آغاز ہوا ہے اور اس آغاز کو بلوچ قوم کے وسیع مفاد میں قرار دیا جاتا رہا ہے، تقسیم اور نئی پارٹی کی بنیاد کسی نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر معرض وجود میں نہیں آئے بلکہ مفادات کے حصول اور تکمیل کے لئے پارٹیاں بنائے اور توڑے گئے ہیں۔ جب پارٹیاں تشکیل پاتی ہیں ان میں وہی کردار، وہی نظریہ اور وہی دقیانوسی سوچ پر مشتمل افراد ہوتے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ تشکیل قوم کے مفاد میں عمل لائی گئی ہے۔ اب تقسیم کیسے قوم کی مفاد میں ہے؟ آج بلوچستان میں درجنوں پارٹیاں موجود ہیں، پارلیمانی اور غیر پارلیمانی جماعتیں ہیں لیکن ان کا انتخاب کرنے، شامل ہونے اور اس پلیٹ فارم سے جدوجہد کے بجائے ایک نئی تقسیم کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب کہور خان کو سیاسی اسپیس دینے کے لئے صف بندی ہورہی ہے، اس صف بندی میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا گذشتہ 3 دہائیوں میں بلوچ سیاست میں کوئی contribution نہیں ہے، خود کہور خان کا بھی طلباء سیاست کے بعد ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ کوئی کردار نہیں رہا ہے، بلکہ سرکاری نوکری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو مکمل کٹ آف کیا، پرکھا جائے تو ان کا سماجی کردار بھی نظر نہیں آتا، بلوچستان کی سطح پر چھوڑیں علاقائی سطح پر کسی بھی میدان میں کوئی خدمات نہیں ہیں، اگر وہ سرکاری نوکر رہے ہیں بھی تو صرف اپنے ضروریات تک محدود رہے ہیں۔ جب ملازم تھے تو بی ایس او سمیت دیگر سیاسی کارکنوں سے ملنے و ملاقات کو اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار پھر انہیں بلوچ و بلوچستان کا درد ہونے لگا ہے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے کچھ ایسے نام نہاد کنفوزڈ صحافیوں کو ذمہ داری سونپی گئی جو اب تک خود گومگو کا شکار ہیں۔
بلوچستان میں ویسے بھی صحافت اور دانشوروں کا قحط ہے، اس قحط الرجال میں ہر شخص صحافی اور دانشور بنا پھیرتا ہے، پھر اپنے دانشورانہ منافقت کے ذریعے نوجوانوں کو کج بحثی میں الجھا کر انکی سیاسی قوت کو تقسیم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ دراصل یہ سب قوتیں بلوچ قوم پرستانہ سیاست اور مزاحمت کے خلاف محاذ قائم کرکے ریاست سے مراعات حاصل کرنے کوششوں میں ہیں، جس طرح ان کے اکابرین زائد عمر ہونے کے باوجود سرکاری ملازم بن گئے تھے اور بی ایم سی سے ریٹائرڈ ہوکر کینٹ کالج میں فوراً نوکری حاصل کی۔ زائد عمر دانشور اب نوکری سے فارغ ہوکر سیاست کو اپنا مشغلہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ٹائم پاس کے لئے کوئی اور جاب نہیں، وہ پارٹی تشکیل دے کر ٹائم پاس اور مراعات ایک ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ طبقہ اب بلوچ نوجوانوں اور تحریک کو نسل پرست، جذباتی قرار دے رہے ہیں، قوم پرستوں کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈا مہم کا آغاز کرچکے ہیں، یہ گروہ پروپیگنڈا کرتا ہے جب ان سے بحث کرو یا کوئی سوال اٹھاو تو جواب دینے اور بحث کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتے ہیں، فیس بک پر پوسٹ کرتے ہیں کہ آئندہ نہیں لکھیں گے اور کسی گروپ میں ہونے والے بحث و بات چیت کے اسکرین شاٹ لے کر پوسٹ کے ساتھ لگاکر ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ہمارے دانشور صاحب کا ہمدردی سمیٹنے کا طریقہ ہے، کچھ عرصے قبل ایک شخص نے نشے کی حالت میں ایک ویڈیو بناکر فیس بک پر اپ لوڈ کیا تھا موصوف نے اس ویڈیو کو لے کر ہنگامہ کھڑا کیا تھا، پھر معافی کا اعلان فاتحانہ انداز میں کرکے اپنے کامیابی کے جھنڈے خود فیس بک پر گاڑھ دیئے تھے، اب سستی شہرت حاصل کرنے کے بھوکے ایسے شخص سے کیا توقع رکھا جاسکتا ہے۔
قوم پرستوں کو نسل پرست کہنے والے خود کو لوڑی کہہ کر طبقاتی طور پر بلوچ قوم میں نسلی تقسیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، قوم پرست ایسے مفروضوں پر یقین نہیں رکھتے نہ ہی بلوچ قوم کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کے حق میں ہیں، لوڑی سے لیکر دوسرے تمام قبیلوں کو برابر سمجھتے ہیں، لیکن یہ سرخے اس طرح کی نسلی اور لسانی تفریق پیدا کرکے بلوچ قوم کو طبقات میں تقسیم کرنے کی سازش کرتے ہیں۔ ریاست اور ریاستی آلہ کار بلوچ قوم کو براہوئی و بلوچ کے بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشیں ترتیب دے رہے ہیں، سندھ میں بسنے والے کچھ افراد سوشل میڈیا پر نیوز پیج بناکر لسانی تقسیم اور تفریق پیدا کرنے کی سازش میں پیش پیش ہیں۔ ایسے سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے بلوچ قوم کو قوم پرستی کی بنیاد پر متحد ہونا پڑے گا۔ بلوچ قوم کو لسانی اور طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے والے ایک ہی گملے میں افزائش پا رہے ہیں۔
کہور خان اور امین رئیسانی کا ایجنڈا ایک ہے کہ بلوچ قوم کو نسلی اور طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرکے انکی قوت کو کمزور بنایا جائے اور موجودہ جاری تحریک کو کاونٹر کیا جائے۔ قبضہ گیر ریاست کا یہ بہت پرانا وطیرہ رہا ہے کہ قوموں کو مذہب، زبان اور طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرکے انہیں کمزور بنایا جائے، بلوچستان میں ریاست مذہب، نسل اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کے لئے اپنے آلہ کاروں کو سرگرم کرچکا ہے۔ رانا اشفاق، شفیق مینگل، امین رئیسانی، سلطان شاہوانی، جہاں آراء تبسم اور کہور خان، عابد میر، ظریف رند کا ایجنڈا ایک ہے لیکن طریقہ واردات الگ ہے کسی نے مذہب تو کسی نے لسانی اور کسی نے طبقاتی لبادہ اوڑھ کر نوجوانوں اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان سب کا نشانہ دراصل بلوچ نیشنل ازم ہے۔ کہور خان کا دوبارہ ظہور بھی اسی گھناونی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔