کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

140

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3985 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء ملک نصیر شاہوانی، سیاسی و سماجی کارکن حوران بلوچ، ایڈدوکیٹ خالدہ سمیت دیگر نے شرکت کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ظلم و جبر کے سیاہ اور طویل راتوں کی تاریخ کے اوراق انگنت معلوم و نامعلوم وحشت ناک مظالم کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے جہاں نوجوانوں کے لہو کی چھینٹیں کبھی ریاستی عقوبت خانوں کے تاریک کوٹھڑیوں کے بے رحم دیواریوں، تو کبھی گلزمین کے خاک کا داستان سناتے ہیں۔ ایسی کئی راتیں ہمارے حصے میں آئی ہے، یہ تاریکی آج بھی ہمارے گرد منڈلارہی ہے، اس تاریکی نے ایک بار پھر اپنے شکنجوں میں بلوچ نوجوانوں کے جسموں کو جکڑ لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھر سے ایک تاریک رات کا سہارا لیتے ہوئے دشمن اور اس کے گماشتے اور کرائے کے قاتل بلوچ دھرتی پر پیدا ہونے والے ماں کے مامتا کا سودا کرکے اسی دھرتی ماں کے غیرت مند بیٹوں اور بیٹیوں کو والہانہ محبت کرنے کی سزا میں بلوچ سے چھین لیا گیا۔

ماما قدیر نے کہا کہ یقیناً بلوچستان کے وہ عظیم فرزند اور خواتین بن گئے جن کی قربانی زندہ مثال بن گئی ہیں۔ بلوچ فرزندوں اور خواتین کی بازیابی کے لیے جدوجہد کو چار ہزار دن مکمل ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کے جبر کے شکار ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے پرامن جدوجہد کا کاروان مشکلات اور سخت حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مصروف عمل ہیں۔

دریں اثناء کیمپ میں موجود لاپتہ ظفراللہ بنگلزئی کے والدہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‏میرے بیٹے ظفراللہ بنگلزئی کو 2013 میں کلی جیو کوئٹہ سے لاپتہ کیا گیا۔ میرا شوہر بیٹے کی جدائی کا غم برداشت نہ کرسکا اور وہ اس دنیا رحلت کرگیا۔

انہوں نے کہا کہ میرے نواسے تھلیسمیا کے مریض ہے، میں بہت پریشان ہوں میرے بیٹے کو عید سے پہلے بازیاب کیا جائے۔