بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد، بلوچ ایجوکیشنل کونسل بہاولپور، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان، بلوچ ایجوکیشنل کونسل کراچی، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لیاری کی جانب سے معروضی حقائق کے برعکس آن لائن کلاسز کے انعقاد، سمسٹرز فیسوں کے مطالبے، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ہٹ دھرمی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران کی بے حسی کے خلاف ایک پر امن ریلی آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک نکالی گئی۔
ریلی میں طالب علموں سمیت مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ طالب علموں کو انصاف فراہم کیا جائے کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا آن لائن کلاسز کے انعقاد کے فیصلے کی وجہ سے طالب علم شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور انہیں اپنے مستقبل کے حوالے شدید فکر اور خطرات لاحق ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے طالب علم رہنماؤں نے کہا کہ آج ہمارے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کا تیسرا دن ہے۔ ہم تین دنوں سے اس تپتی دھوپ اور شدید گرمی میں اپنے حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ادارے ہمارے مسائل کے حل کے لئے مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لئے پالیسیاں مرتب کرنے والا ادارہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن زمینی حقائق سے بے خبر ہو کر تعلیم دشمن پالیسیاں مرتب کررہی ہیں اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات سادہ ہیں کہ بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کریں ہم آن لائن کلاسز ضرور لیں گے لیکن بغیر انٹرنیٹ اور بجلی کے ہم کیسے کلاسز لے سکتے ہیں؟ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ متعلقہ سہولیات فراہم کرنے کے بعد ہی آن لائن کلاسز کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔
طالب علم رہنماؤں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز اور لیکچرار کو بھی آن لائن کلاسز لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کو بھی شدید مشکلات اور سہولیات کی عدم فراہمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اگر طالب علم اور لیکچرار دونوں کو ہی کلاسز لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے تو طالب علم کیا سیکھ پائے گا ایسے کلاسز لینے سے بہتر ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے کو منسوخ کرواکے متبادل ذرائع کی تلاش پہ کام جاری رکھے تاکہ تمام طالب علم اس سے مستفید ہوسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے معروضی حقائق کو نظر انداز کرکے طالب علموں پہ من مانے فیصلے مسلط کرنے کی وجہ سے ملک کے بیشتر طالب علم ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور طالب علموں کے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان، ڈیرہ غازی خان اور کشمیر کے طالب علم اس اقدام کے خلاف کرونا وائرس کے مہلک وبا کے دنوں میں بھی احتجاج پہ مجبور ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے قواعد و ضوابط مرتب کرکے شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ کھولنے کی اجازت دی ہے تو کیا تعلیمی اداروں کے لئے ایسے قواعد و ضوابط مرتب کرکے اور ان پہ سختی سے عملدرآمد کرواکے تعلیمی اداروں کو کھولا نہیں جاسکتا؟ اگر حکومت ایس او پیز پہ عملددرآمد کرانے سے قاصر ہے تو تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور آن لائن کلاسز کی منسوخی کے احکامات جاری کرکے طالب علموں کو ذہنی اذیت سے چھٹکارہ دلوائیں۔
طالب علم رہنماؤں نے مزید کہا کہ مطالبات کی منظوری تک طالب علموں کا احتجاج جاری رہے گا۔ جب تک ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرواکے منسوخ نہیں کرتی طالب علموں کے احتجاج میں مزید شدت لائی جائیگی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی، کوئٹہ، ڈیرہ غازی خان اور ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ میں پیٹیشن بھی دائر کرینگے۔ پر امن احتجاج کے تمام ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرینگے اور یہ جدوجہد انصاف کی فراہمی تک جاری رہیگی۔