سانحہ ڈنُک اور حکومت کی ذمہ داریاں – زیِن بلوچ

260

سانحہ ڈنُک اور حکومت کی ذمہ داریاں

تحریر: زیِن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فطری طور پر عورت محبت کی مثال اور امن کی دیوی ہوتی ہے۔ خدا نے اسے بیوی کی صورت میں وفا کا پیکر تو ماں کے قدموں میں جنت رکھ دی اور بیٹی کو رحمت بنا دیا۔ عورت اپنی محبت میں ہی گھر کو جنت اور بہارگاہ بناتی ہے، اس لیے نہیں کہ اگر وہ عورت ہے تو اس پر یہ کام لازم ہے بلکہ یہ سب وہ اپنی ممتا اور محبت کے لیے کرتی ہے لیکن فرسودہ نظام اور رسم و رواج کے نام پر عورت کی محبت کو اس کی کمزوری بنا دی گئی اور مرد اپنے بازؤں کے طاقت کو عورت کے نازک ہاتھوں پر فوقیت سمجھ بیٹھا۔ بلوچستان بھی ایک ایسا ہی بدنصیب حصہ ہے دنیا کا جس میں آج بھی عورت دوسرے درجے کا انسان ہے۔

ہم کچھ دوست اِن بحثوں میں اُلجھے تھے کہ بلوچستان کی بیٹی جو تعلیم سے محروم ہے اس کے لیے آواز بنیں۔ ہم اس سوچ میں تھے کہ بلوچ بیٹی کی کم عمری میں شادی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ہم اس بات پر غوروفکر کر رہے تھے کہ عورت کو سماج میں برابری کا حق ملے۔ مگر بلوچ خواتین اپنے گھر میں ہی محفوظ نہیں رہی، سرے عام اس کا قتل کیا جاتا ہے اور عرصہ دراز سے بلوچستان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔

بلوچ تاریخ میں دیکھا جائے تو ہمیشہ بلوچ عورت اپنے گھر میں محفوظ رہ جائے، قبائلی جنگیں ہوئی ہوں یا کوئی بھی حالت مگر عورت پر ہاتھ اٹھانے کا تصور نہیں ملتا لیکن بلوچستان کئی عرصے سے بدنظمی ، سیاسی انتشار اور ظلم کا شکار ہے۔

بلوچستان کے ہر گلی میں منشیات فروش موجود ہیں اور بلوچستان کا ہر شہری چاہے مرد ہے یا عورت وہ غیر محفوظ ہے اور بلوچ عورتوں کو شہید کرنے کا عمل ریاستی ڈیتھ سکواڈ کے لوگوں نے شروع کر دی ہے۔ حال ہی میں تربت کے علاقے ڈنک میں رات کو سمیر سبزل اور اس کے ساتھی گھر میں ڈکیتی کرنے گھستے ہیں اور گھر کے افراد کو زدوکوب کرکے گھر کا قیمتیی سامان لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں، جس پر بہادر بلوچ ماں ملکناز مزاحمت کرتی ہے، جس کو سمیر سبزل کے کارندے فائرنگ کرکے شہید کر دیتے ہیں اور ان کی چار سالہ بیٹی برمش کو شدید زخمی کیاجاتا ہے۔ ہمسایوں کے مدد سے ڈاکووں کو پکڑلیا جاتا ہے جن کی تصویرے صوبائی وزیر کے ساتھ سوشل میڈیا میں موجود ہوتی ہیں۔

اس دن سے بلوچستان بھر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور ملکناز اور برمش کے لیے انصاف کی آوازیں بلوچستان کے ہر شہرسے اٹھ رہی ہیں ۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عرصہ دراز سے بلوچستان کے ہر علاقے میں چور لٹیروں ،منشیات فروشوں کا راج کیوں ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکناز وہ پہلی خاتون ہے جو اس طرح قتل ہوئی ہے؟ کیا برمش وہ پہلی بچی ہے جو تشدد کا شکار ہونے کے ساتھ اپنی ماں کو کھو چکی ہے؟ اب برمش بھی ہزاروں بچوں کی طرح اپنی ماں کا انتظار کر رہی ہے اس ننی جان کو کیا معلوم کہ اب اسے ماں کی ممتا کبھی نہیں ملے گی۔

مجھے بلوچستان میں ہر عورت ملکناز نظر آرہی ہے وہ جینا چاہتی ہے مگر اسے جینے نہیں دیا جاتا جب وہ اپنے لیے آٹھتی ہے تو قتل کر دی جاتی ہے۔ مجھے ہر بچی برمش نظر آرہی ہے، جیسے کھلونوں کی طلب نہیں رہی، اس کی آنکھیں اپنی ماں کی گود کی تلاش میں ہیں۔ بلوچستان کی عورت اپنی بنیادی حقوق سے تو دور ہی تھی، مگر اب اس کا گھر بھی اس کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ کیا پتہ کل کو کون کس کے گھر میں گھس کر کسی اور ملکناز کو اپنی گولیوں سے چھلنی کر دے۔

اس مسئلے پر حکومتی سطح پر کوئی فوری عمل سامنے نہیں آیا، صرف حکومتی ترجمان کا ڈنک جاکر فاتح پڑھنا کافی نہیں اور نا ہی ان مجرموں کی گرفتاری کافی ہے بلکہ ایسے گروپس کی پشت پناہی بند کر دی جائے جو کہ اب اتنے دلیر ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی جرم کرنے سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے سے باز آتے ہیں۔ ان کے منشییات کے اڈے ہر گھلی میں موجود ہیں جو کہ نوجوانوں کا مستقبل برباد کر رہے ہیں۔

حکومتِ بلوچستان کو اب خواتین کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ نہ ہو کہ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کی طرح یہ معاملہ بھی کچھ وقت کے بعد دب جائے۔ بلوچستان حکومت کو عورتوں کی تحفظ ، اس کی تعلیم اور بنیادی حقوق پر عملی پشرفت کرنی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔