بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے جرمنی میں جاری دو روزہ آگاہی مہم آج اختتام پزیر ہوگیا، اس مہم کے تحت کراچی سے اغواء ہونے والے نواز عطاء اور دیگر کمسن بچوں و طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف ہزاروں پمفلٹس تقسیم کیے گئے
ان پمفلٹس میں بلوچستان میں جاری جبری گمشدگی کے خلاف دنیا بھر کے عوام سے آواز اٹھانے کے مطالبے اور کراچی سے اغواء ہونے والے نوجوانوں کی تفصیلات درج تھے۔
جرمنی کے شہر برلن میں جاری اس آگاہی مہم کے دوران جرمنی میں مقیم بلوچوں سمیت انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں نے بھی حصہ لیا۔ بی ایچ آر او کے ترجمان نے اس مہم کی اختتام میں اپنے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات میں شدت آئی ہے، سیاسی کارکنوں کی مسلسل گمشدگی کے بعد اب کمسن بچوں اور خواتین کو بھی اغواء کیا جارہا ہے۔ کراچی سے28اکتوبر کو اغواء ہونے والے 9طلباء میں بی ایچ آر او کے انفارمیشن سیکرٹری سمیت 8طلباء شامل ہیں جن کی عمر8سے 25سال کے درمیان ہے، اغواء کے ان واقعات کے دو روز بعد کوئٹہ سے چار خواتین کو بچوں سمیت اغواء کیا گیا، اغواء کے تین روز بعد خواتین رہا ہو گئے لیکن ان کے ساتھ اغواء ہونے والے نوجوان بازیاب نہ ہو سکے جن کی عمربالترتیب 16اور 17سال ہے۔
بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے غیر قانونی و غیر اخلاقی طریقے سے خفیہ قید خانوں میں بند کیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی کی وجہ سے کمسن بچوں کے اغواء جیسے پریشان کن واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، اسی ہفتے کے دوران گوادر کے رہائشی نوجوان بھی لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔
بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کے ادارے ریاستی قوانین کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں، بلوچ قیدیوں کو کھلی عدالتوں میں صفائی کا موقع دئیے بغیر پھانسی دیا جارہا ہے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے خفیہ قیدخانوں میں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان تمام غیر انسانی واقعات کے خلاف 15نومبر کو کوئٹہ میں مظاہرہ کیا جائے گا اور 19نومبر کو کراچی میں ریلی نکالی جائے گی، تمام انسان دوستوں سے اپیل ہے کہ وہ ہماری احتجاج میں ہمارا ساتھ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کی طرف سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ایک پریشان کن امر ہے، اقوام متحدہ کو اس جانب فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔