استاد حمید شاہین کا خط
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تحریک آزادی کی اس سفر میں بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو بہت جلد تنظیمی سنگتوں کے سامنے اپنا ایک مقام اور پوزیشن بنا پاتے ہیں۔ کامریڈ حمید شاہین بلوچ کا بھی ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے، جس نے انتہائی کم وقت میں اپنے دن رات کے محنت، لگن اور کوشش کے بدولت ایک مقام حاصل کر لیا تھا۔ اس بات کو میں اپنے لیے بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ کامریڈ حمید شاہین کی زندگانی میں اس سے میری ملاقات نہیں ہو سکی البتہ آج یہ بات میرے لیے حوصلہ کن ثابت ہوتا ہے کہ آج میرا شمار بھی ان سنگتوں میں ہوتا ہے جو شہید استاد حمید شاہین کے نقش قدم پر چل کر اس کے مشن کو آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ وہ عمل ہے جو کبھی بھی مجھے مایوسی کی طرف نہیں دھکیلتا ہے۔
کچھ سال پہلے ایک پرانا تنظیمی دوست مجھے نواب خیر بخش مری کے نماز جنازے کے موقع پر نیو کاہان شالکوٹ میں ملا، تو ہمارے رابطے دوبارہ بحال ہوئے، ملاقاتوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا، ایک دن اس سنگت نے مجھے شہید کامریڈ حمید شاہین بلوچ پر سنگر پبلشر کی طرف سے جاری کی گئی کتاب بطور تحفہ پیش کیا، اس کتاب میں شہید کامریڈ حمید شاہین بلوچ کے اپنے الفاظ جو انہوں نے خود ذاتی طور پر محفوظ کیے تھے اور اس کے علاوہ شہید حمید شاہین کے شہادت کے بعد ان کے ہم خیال فکری و نظریاتی سنگتوں نے ان کے ساتھ گذارے ہوئے لمحوں کو ایک آرٹیکل کی شکل دوستوں کے سامنے پیش کیا تھا۔
اسی کتاب میں ایک دوست نے سنگت حمید شاہین کی کچھ الفاظ کو اپنے کالم میں لکھا تھا، جو آج تک میرے ذہین میں محفوظ ہو چکے ہیں خاص طور پر عید کے دن اس بات کو قطعاً بھول نہیں سکتا۔
وہ دوست اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں کہ “ہم ایک دفعہ کیمپ میں موجود تھے، عید کے دن قریب آرہے تھے، شہید حمید شاہین کی اہلیہ نے اسے خط لکھا تھا کہ عید قریب آرہی ہے، آپ محاذ یعنی میدان جنگ سے چھٹی لے کر گھر آئیں، عید اور کچھ دن ہمارے ساتھ گذاریں، کافی عرصے سے آپ گھر نہیں آئے ہو۔”
کامریڈ حمید شاہین نے خط کا جواب ایک صفحے پر لکھ کر کسی ذمہ دار دوست کے ہمراہ اپنی شریک حیات کیلئے بھیجا، جو بدقسمتی سے اس کی اہلیہ تک پہنچ نہیں سکا۔
کامریڈ حمید شاہین بلوچ کے الفاظ کچھ یوں تھے
“امید ہے کہ آپ سب گھر والے خیر و عافیت سے ہونگے، بالکل عید پر گھر آنے کو کافی دل کررہا ہے اور کافی عرصے سے آپ سب گھر والوں سے بھی ملاقات نہیں ہوا، کچھ تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے میں اس عید پر آپ لوگوں کے ساتھ نہیں ہو سکتا ہوں لیکن میرے لیے ہر وہ دن عید ہے جب دشمن پر تنظیم کی طرف سے حملے ہوتے ہیں اور دشمن نقصان اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ حال ہی میں ڈیرہ بگٹی میں آرمی کے کانوائے کو وطن کے سربازوں نے نشانہ بنایا، جس میں فورسز کے متعدد اہلکار جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں، وہ دن میرے لیے کسی عید کے خوشی سے کم نہیں تھا
البتہ یہ عید بھی میرے ہمفکر سنگتوں کے ساتھ گذرے گی، آپ کو تو پتہ ہے دوست میرے ہاتھ کے کھانوں کو پسند کرتے ہیں، میں اس بار کوشش کروںگا کہ اپنے دوستوں کے لیے کچھ اچھا سا کھانا بنا سکوں تاکہ انہیں یہاں عید پر گھر کی کمی محسوس نہ ہو۔”
واضح رہے کامریڈ حمید شاہین بلوچ 3 مارچ 2011 کو علاج کے غرض سے شالکوٹ سے کراچی کے لیے جارہے تھے، جنہیں کوئٹہ کے سونا خان تھانے کے قریب خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مسافر بس سے اغواء کیا اور 1 اپریل 2011 کو کامریڈ حمید شاہین کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش مشرقی بائی پاس کے قریب ملا تھا۔ انہیں قومی اعزاز کے ساتھ ہزاروں افراد کی موجودگی میں اسپلنچی ضلع مستونگ میں سپردخاک کردیا گیا۔
شہید کامریڈ حمید شاہین آج جسمانی طور پر ہمارے ساتھ اس سفر میں موجود نہیں ہے لیکن کامریڈ حمید شاہین کی تعلیمات نے آج گراونڈ پر ہزاروں ایسے نوجوان جنم دیئے، جو شہید استاد حمید شاہین کے مشن کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔