اکیسویں صدی میں بلوچ نوجوانوں کی ذمہ داریاں – واھگ بلوچ

168

اکیسویں صدی میں بلوچ نوجوانوں کی ذمہ داریاں

تحریر: واھگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جیسا کہ ھم سب جانتے ہیں کے دنیا کے تمام اقوام کی ترقی میں سب سے زیادہ حصہ قوموں کے نوجوان طبقے کے کاندھوں پر ہوتا ہے، جو دن اور رات مخلصی سے اپنے قوم، اور ملک کے لئے اپنے قوت بازو، اپنے ہنر، قابلیت، دیانتداری سے جدوجہد کرکے ترقی کی اونچائیوں کو چھونے کے قابل بنتے ہیں، اور دوسری قوموں اور خاص طور پر اُنکے نوجوان طبقے کے لئے ایک مشعل راہ کی صورت میں اقوام عالم کے سامنے ظاہر ہوکر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

نوجوان طبقے کو کسی بھی قوم کی طاقت اور اسکی ریڑھ کی ہڈی کے مانند سمجھا جاتا ہے، جس سے اُس قوم کی آج اور آنے والے کل کا انحصار ہوتا ہے۔

اگر ہم موجودہ دور میں ترقی کرنے والے، آسمان کو چھونے والے، قوموں کا ذکر کریں تو ہمارے سامنے بہت سی قوموں کی تاریخیں بھری پڑی ہیں کہ آیا کس طرح وہ قومیں کالی راتوں کے اندھیروں سے لڑکر ترقی کی سورج کو اپنے قدموں کے نیچے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

دانشمند اقوام ہمیشہ دوسرے اقوام سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کے لگن میں اپنی توانائی استعمال میں لاتے ہوئے ان سے بھی بہتر کرنے کی جستجو میں ہوتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو ایک قدم آگے منوانے میں کامیاب ہوجائیں۔

دنیا کی تاریخ میں بہت سی قومیں وجود میں آنے کے بعد زوال پزیر ہوکر نیست و نابود ہوگئے، جو اپنے آپکو دنیا کے اس ظالمانہ نظام میں محفوظ نہ رکھ سکے۔ تو دوسری طرف کچھ ایسی بھی قومیں دنیا میں موجود ہیں، جو کم وقت میں ترقی کی اونچائیوں کو چھوکر دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے اپنے آپکو منوانے میں کامیاب ہوئے، ان دونوں صورتوں میں کامیابی یا ناکامیابی کا سہرا نوجوان طبقے پر جاتا ہے کے وہ کس طرف اپنے قوم کے آج اور آنے والے کل کو دیکھانا چاہتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں بلوچ نوجوانوں کے ذمہ داریوں کے بارے میں۔۔۔
لفظ بلوچ، جو اپنے آپ میں خود ایک بہت قدیم تاریخ اور بڑی سرزمین کا مالک ہے۔ بلوچ کی تاریخ تو بہرحال ابھی تک کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکی، جس سے سارے تاریخ دان ، ادیب اور تمام بلوچ قوم کسی ایک پوائنٹ پر متفق ہوں کہ آیا اس قوم کا ظہور کہاں؟ کب ہوا ؟ اور کیسے اس سرزمین تک آپہنچا؟ بہرحال وہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بیچیدہ کہانی ہے ۔

ایک تو بلوچ ہونا اس دور میں کسی چیلنج سے کم نہیں اور اُس سے بڑھکر ایک بلوچ نوجوان ہونے کی حیثیت سے زندگی گزارنا وہ بھی آگ کے دریا کو تیر کر پار کرنے سے کم نہیں۔

موجودہ دور میں جہاں بلوچ قوم پاکستان ایران اور افغانستان میں سیاسی طور پر تقسیم ہیں، تو دوسری طرف جنگی صورت حال ، بےروزگاری، تعلیم کا فقدان، صحت کی ضروریات ناہونے کے برابر، فرقہ واریت کا بڑھاو، قتل و غارت میں اضافہ، بلوچ نسل کشی میں اضافہ، قبائلی لڑائیوں کا پروان چڑھنے کی وجہ سے لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے اور پاکستان کے دوسرے صوبوں میں مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جو بدقسمتی سے ملکی تاریخ کے شروعاتی دنوں سے جاری ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا لیکن مختلف ادوار میں کمی اور اضافہ اس میں ہوتی آرہی ہے۔

اب تو نوبت یہاں تک آپہنچا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے بلوچستان کی آبادی باہر زندگی گزارنے والے بلوچ مہاجرین کے آبادی سے بھی کم بتائی جاتی ہے۔ جو دنیا کے بہت سے ممالک میں بہتر زندگی، بنیادی سہولیات حاصل کرنے کی کوشش میں اپنے آباواجداد کے زمین، اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑکر دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہونے پر مجبور ہوئے۔

ان سب صورتحال کو سمجھنا اور انکو بہترین طریقے سے حل کرنا یہ ساری ذمہ داری بلوچ نوجوانوں کے سر آجاتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان سب معاملات کو کس طرح بلوچ قوم کے حق میں لانے میں اپنا بہتر ین کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک طرف موجودہ جاری آزادی کی جنگ جو کئی ادوار میں شروع ہونے والے جنگوں سے بہت مختلف اور سائنٹفک طور پر ہمارے سامنے کھلی کتاب کی طرح سمجھنے کے لئے پڑی ہے اور جہد مسلسل سے اپنی قومی آزادی لینے کے بعد قومی آزسر نو تعمیرات کے ذریعے بلوچ اپنے اداروں، اپنے تاریخ، وسائل، معدینات، ساحل سمندر، اپنے قومی فیصلوں کے خود مالک ہونگے۔

جس سے وہ اپنے آنے والے مستقبل کا فیصلہ بہترین حکمت عملی کے ساتھ کرنے کے پابند ہونگے، بنا کسی کالونیل طاقت کے، جو کسی بھی ملک کو کالونی بنا کر اُس قوم کے وجود کے لئے خطرہ بن کر اُسکے سر پر منڈلاتا پھرتا ہے۔ اُس کالونیل پاور کے اندر رہتے ہوئے اپکے پیدائشی بنیاد قومی پہچان سے لیکر آپکے مرنے تک سب کچھ اس کالونیل پاور کے ہاتھوں میں یرغمال ہوتا ہے۔ جسکو اپکے زبان، پہچان، ادب ،ثقافت سے کوئی پرواہ نہیں ہوتا، یہاں تک کے اُسکو اپکے ہم مذہب ہونے پر بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتا۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں، تو ہمیں فلپائنی قوم جو سولہویں صدی میں ہسپانوی سامراج کے ظلم و ستم کا شکار تھی، اسکے نوآبادیات میں شامل ہونے سے پہلے وہ قوم سیاسیات، تجارت ، مذہب، اور سامراجیت کے کھیل سے ہزاروں سال تک محفوظ تھے۔

وہ جزائروں پر مشتمل ایک کسانوں اور مچھیروں کا ملک تھا، لیکن جب سامراج اسپین جو کھیتولک مذہب کا چمپین تھا، 1521 میں فلپائن پر حملہ آور ہوا تو فوجی طاقت کے استعمال کے بدلے وہ مذہب کو بہترین ہتھیار سمجھتے تھے، جسکے استعمال سے مذہبی تبلیغ جاری کرکے سب فلپائنی لوگوں کو ہم مذہب بنا کر انکے وسائل کو لوٹنے لگے تاکہ مذہب کے ہتھیار کو استعمال کرکے سامراج لوگوں کو اپنے گرفت میں کرسکیں اور مذہبی طریقے سے یکسانیت کا لبادہ اوڑھتے رہیں، اور اپنا استحصال جاری رکھیں۔

دوسری طرف انہی کیتھولک مذہب کے سامراجیوں نے 1898 میں ایک خفیہ معاہدے کے زریعے فلپائنی عوام جو زیادہ تر کیتھولک مذہب کے پیروکار بن چکے تھے، انکو دوسرے مذہب کے ہاتھوں (protestant christian ) امریکی سامراج کے ہاتھوں ($2Million) دو کروڑ ڈالر میں بیچ کر چلاگیا، بنا پرواکیئے کے فلپائنی قوم اب انہی اسپین سامراج کے مذہب سے منسلک ہوگئے ہیں اور ایک ہی مذہب کے پیروکار ہیں۔

سامراجی طاقت کا نا تو کوئی دین ہوتا ہے نا تو کوئی مذہب اسکے تو صرف اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں، جس سے وہ اپنے حاکمیت کو بڑھاتا جاتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے سامراجیت کو برقرار رکھنے کے جستجو میں رہتا ہے۔

ایسا نا ہو کہ بلوچ نوجوان اسی ہم مذہبی نقطے کی نیند میں سوئے رہیں اور انکے وسائل، انکے سرزمیں، کسی اور سامراجی طاقت کی لگائی ہوئی قیمت میں نیلام تو نہیں ہو رہا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔