جدید نیشنلزم، مشترک قومی وسائل اور تحفظ : حصہ دوئم – صورت خان مری

782

   جدید نیشنلزم، مشترک قومی وسائل اورتحفظ : حصہ دوئم 

تحریر : صورت خان مری

دی بلوچستان پوسٹ 

ضروری نوٹ : بلوچ مفکر و دانشور صورت خان مری کا یہ کالم 14 فروری 2003 کو روزنامہ آساپ میں شائع ہوا تھا ۔

گذشتہ سے پیوست     

جے ایچ لاسکی نے دوایسے عناصر پربھی تفصیل سے لکھا۔جو جدیدنیشنلزم کی کمزوری پرمنتج ہوتے ہیں ایک جدیدطریقہ جنگ سے لی گئی صورت حال ہے۔جبکہ دوسری صنعتی دورکا جبلتی کردارہے۔ جہاں ایک خاص ملک میں ایک طرف جب کارخانہ اورصنعتی علاقوں میں مزدور اکٹھے ہوتے ہیں تواس کے سامنے طبقاتی تضاد زیادہ نمایاں ہوتا ہے اوردوسراعنصرصنعتی پیداوار کے لئے مارکیٹ کی تلاش۔ جس نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کوبین الاقوامی فیصلوں پربھاری گردانا“۔
(ہم ملٹی نیشنل کاروباری اداروں جس کو فی زمانہ گلوبلائزیشن سے تعبیر کرتے ہیں بات کررہے تھے جس آگے چل کرکتاب نیشن اورنیشنلزم۰۸۷۱؁ء سے آگے۔مصنف ای جے ہابسبان۔ کے حوالے سے تفصیلی بات کریں گے)۔
مذکورہ کتاب ۲۹۹۱ میں چھپی۔آخری باب سویت یونین اورمشرقی یورپ کے انہدام،دنیا کی تاریخ میں کم ترمدت میں بڑے پیمانے پرقومی ریاستوں کی تشکیل،گلوبلائزیشن اورملٹی نیشنل کمپنیوں،امریکہ کا واحد سپرپاور کے طورپر ابھرنا اوران تمام کا نیشنلزم اورقومی ریاستوں پراثرخاص کر مغرب اوریورپ میں اثرات پرتفصیلی بحث کی گئی ہے۔
Nation and Notionalism Since1780مصنفE.J Hobsbawn سال تصنیف ۲۹۹۱=اقتباسات۔
اس حقیقت کے باوجود کہ اب تک پورے یورپ خاص کربرطانیہ اورفرانس میں نیشنلزم کے بارے میں تحقیق ونتائج انتہائی نامکمل اورناقص ہیں لیکن باایں ہمہ یورپین نیشنلزم کوتین مدارج میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
پہلا مرحلہ نیشنلزم کا بیان اورپہچان ثقافت،ادب،تحریراورلوک ورثہFolkloric پرمبنی تھا۔قوم اور قومیت کے کوئی خاص سیاسی اورقومی تقاضے نہیں ہوتےتھے۔قوم کی شناخت ہی کواولیت حاصل تھی۔

دوسرے مرحلہ میں نیشنلزم کا جذبہ کھل کر سامنے آیا۔قوم اورنیشنلزم کے تصوراورآئیڈیاز ابھرے اورپہچانے گئے۔ وطن اورقومی ریاست کے لئے یانیشنلزم کے لئے سیاسی،عسکری جدوجہدکاآغازہوا۔
تیسرے اور اہم ترین مرحلہ میں عوامی سطح پرشعورتعاون اورجدوجہد کاآعازہوا اس مرحلے میں عموماً قومی ریاست کی تشکیل کے بعدعوامی سطح پرقومی شعورکھل کراجاگر ہوتا ہے اورقومی جدوجہد ایک خاص جہت اختیارکرتی ہے البتہ یہ قومی شعوراورجدوجہدبعض اوقات قومی ریاست کی تشکیل سے قبل بھی ممکن ہے جیسے کہ آئرلینڈ۔ یہ بات دلچسپ اورسوچنے کی ہے کہ نام نہاد تیسری دنیا میں ریاست کی تشکیل یا ماقبل ریاست کی تشکیل ہردوصورتوں میں نیشنلزم واضح صورت اختیارنہیں کرپارہا ہے۔
جہاں تک نیشنلزم یا نیشن(قوم) کی تعریف اور بیان کاتعلق ہے یورپ میں ۴۸۸۱؁ء سے پہلے فرانسیسی لفظNacion(نیشن انگریزی میں) کے معنی اورمطلب کسی ملک،صوبہ یا بادشاہت کے مجموعی رہائشی باشندے اورشہری لئے جاتے تھے اوربعض وقت غیرملکی باشندوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتاتھا۔البتہ اگست ۴۱۹۱؁ء کے بعد سے قوم،قومیت اورقومی ریاست کے جذبہ کوہی تمام انسانی جذبوں، سماجی اور سیاسی تعلقات اوروفاداریوں پرسبقت حاصل ہے۔ یورپ میں ۸۱۹۱؁ء کے بعدکے سالوں میں خاص کرمغربی یورپ میں کمزوراورغریب طبقوں میں جونظریہ اورتصورسب سے زیادہ مقبول اور رائج ہوا ہے۔وہ قوم اورقومی ریاست کی تشکیل ہے اسی نظریے اورتصورکے طفیل تاریخ میں پہلی مرتبہ درمیانے اورنچلے درمیانہ طبقہ کے لوگ برسراقتدار آئے۔ جس سے غریب اورکمزور طبقوں کوپہلی مرتبہ مجموعی طورپرتوجہ حاصل ہوئی۔ بنیادی طورپر جنگ عظیم کے سالوں میں قوم اورقومی ریاستوں کی غیرمتوقع کامیابی کی بنیادی وجہ یورپ کے ملٹی نیشنل ایمپائر اوربادشاہوں کا دھڑام سے انہدام اورگرنا اوراکتوبر ۷۱۹۱؁ء کا روسی انقلاب تھا۔ابتداء میں الائیڈ فورسز یعنی جنگ عظیم کی مشترکہ افواج نے بالشویک قوت کے خلاف ولسن کے قومی ریاست کے تصورکے کارڈ کواستعمال کیا۔ جس سے یورپ میں ایک کے بعددوسری قومی ریاست وجودمیں آتی گئی لیکن دلچسپ امریہ ہے کہ قومی ریاست کی تشکیل کے لئے ولسن کے سرمایہ دارانہ تصوراورلینن کے سوشلسٹ نظریہ میں یکسانیت نے اس عمل میں انتہائی تیزی پیدا کی اوریہی کہا جانے لگا کہIn this Sense nalion and class were not readily seprarable یعنی اس حوالے سے قوم اورطبقہ کوفوری طورپر الگ الگ پیمانوں میں نہیں دیکھا جاسکتا۔خاص کر جب فاشزم کے بڑھتے ہوئے اثرات اورقوت کوسوشلسٹ اور کمیونزم نے مل کرروکا توبیسویں صدی کے کمیونزم کوبنیادی طورپرامریکنزم کا نام دیا جانے لگا۔ اور فاشزم کے خلاف جدوجہدمیں بائیں بازوکے ساتھ اتحادکی بناء پر نیشنلزم کوانتہائی تقویت اورتعاون حاصل ہوا۔ لیکن نیشنلزم کا احیاء اوربڑھوتری ایشیاء اورافریقہ میں یورپین انداز میں نہ ہوسکی حالانکہ سوویت یونین بنیادی طورپر ایک ایشیائی ریاست تھی اس لئے لینن نے انقلاب کے لئے کالونیلزم سے نجات کی جدوجہدکو اولیت بخشی اس کے برعکس لینن کی اس دریافت کے بعدکہ محکوم نوآبادیاتی لوگوں کی نجات اور آزادی دنیا میں انقلاب کے لئے ایک بے مثال سرمایہ ہوگی۔کمیونسٹ انقلابیوں نے محکوم لوگوں کی جدوجہد آزادی کے لئے ممکنہ حد تک ساتھ دیا اوریہ کہا کہ”کالونیلزم اورایمپریلزم سے نفرت کوورکر خورشاید کہیں“ چنانچہ ۵۴۹۱؁ء کے بعدکے سالوں میں قومی نجات اورآزادی کی جدوجہدکوبلاتفریق سوشلسٹ،کمیونسٹ انٹی امپریلسٹ تحریکیں ہی قراردیا جاتا رہا اوراس بناء پراس دوران آزادہونے والی بیشترریاستیں اپنے آپ کو سوشلسٹ ریاستیں کہتی رہیں اوراسی طرح نیشنلزم بائیں بازو کا اعلامیہ اورنعرہ تھا۔ نیشنلزم کی تحریک کی عالمی اور عوامی سطح پر مقبولیت کی بناء پر ہی انیس سو ستر کی دہائی میں سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ملکوں نے کمیونزم اور سوشلزم کا راستہ روکنے کے لئے قوم،قومیت اورقومی ریاست کواستعمال کرنے کی بھرپورکوشش کی اورقومیت کے جذبہ میں مذہبی چاشنی ملانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ یورپ خاص کرمغربی یورپ میں انہی ماہ وسالوں میں قومی اقلیت اورمنقسم قوموں کی طرف بھی توجہ مبذول ہوتی رہی۔دلچسپ امریہ ہے کہ اس دوران سوشلسٹ چین جیسے ملکوں میں اجنبی اور اغیارشہری سے نفرت کی بحث نے مقبولیت حاصل کی۔جوچینی سوشلسٹ مملکت میں چینی قوم پرستی کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ۰۸۹۱؁ء کی دہائی میں یورپ میں عالمی ٹیکنالوجی،صنعتی ترقی اورمارکیٹوں کے حصول نے جہاں قومی تحریکوں اورقومی ریاست کی تشکیل کے عمل کونقصان پہنچایا وہاں ۲۹۔۹۸۹۱ء کے دوران چودہ اٹھارہ قومی ریاستوں کی تشکیل(اس مختصردورانیہ میں تاریخ میں ایک بے مثال ریکارڈ ہے)۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ سویت یونین کی تشکیل کی بنیاد جو کمیونسٹ پارٹی نے رکھی تھی قوم اورقومی یونٹوں پررکھی گئی تھی جس کی وجہ سے ہی گورباچوف کی عملیت پسندی کی بناء پر ڈیڑھ درجن کے قریب قومی ریاستیں وجودمیں آگئیں۔
یہاں یہ ذکر بے جانہ ہوگا کہ اکتوبرانقلاب یا قومی ریاستوں کی تشکیل کے ساتھ ۳۱۹۱؁ء سے قبل کی کالونیلزم اورایمپائرز کی عالمی اقصادیات قومی

اقتصادNational Economy میں بدل گئی اورقومی اقتصادیات کے تحفظProtectionism کا تصوراجاگرہوا۔ جس سے اب ملکوں اور ریاستوں کے درمیان باہمی معاہدوں کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔اس کے بعد قومی ریاست کے جھونپڑی تلے(اگلو) قومی اقتصادیات اور قومی اقتصادی ایمپائر قائم ہوتے چلے گئے۔عالمی سرمایہ داری نظام چھوٹے چھوٹے قومی اقتصاد اوراس سے منسلک ملوکیتی یا سامراجی نظام میں بدلتا چلاگیا۔

عملی طورپراگردیکھا جائے تو۰۸۔۰۷۹۱ء کے عالمی اقتصادی سیلاب کے تجربے کے پیش نظرایسا نہیں ہوناچاہئے تھا۔لیکن عالمی جنگوں کے درمیانی وقفہ میں ایسا ہوچکا ہے اورخاص کر ورسیلزامن معاہدے کے نتیجے میں ولسن قومی ریاست کے تصورکہ قومی ریاست کی حدود خالصتاً قومی اورلسانی بنیادوں پر استوارہوں کے ناممکن متصور ہونے کے باوجودعملی طورپر بیشترحالتوں میں ایساہوتا رہا۔ماسوائے چندضروری تقاضوں کے مثلاً جرمن، اٹلی،پولینڈ میں قومی ریاستیں، البتہ چیکوسلواکیہ،پولینڈ وغیرہ میں ایسا نہ ہوسکا۔جو بعد کے سالوں میں انسانی نسل کشی،غارت گری اورقتل وخون کے موجب بن گئے اس تمام دوران سوشلسٹ اورکمیونسٹ تحریکیں ابھرتی اورکامیابیوں سے ہم کنار ہوتی رہیں جہاں قومی اورقومی ریاست سے انکارنہیں کیاگیا۔البتہ بعض حالتوں میں سوشلسٹ اورکمیونسٹ عوامی مزدوروں کی تحریکوں نے قومی تحریکوں سے الگ آگے نکلنے کی کوشش کی لیکن باسک قومی تحریک نے عملی طورپر روایتی مزدوراور سوشلسٹ تحریک کوپیچھے چھوڑدیا“۔

یہاں اہم سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ۲۹۔۹۸۹۱ء کے بھرپور قومی اورقومی ریاست کے سیلاب اورکامیابیوں کے بعد ۲۰۰۲؁ء تک عالمی سطح پر یورپ یا ایشیاء افریقہ میں قوم،قومیت اورقومی ریاست کا تصوراپنی عملی مقبولیت برقراررکھ سکا یا اس میں تبدیلی کے آثارہیں؟۔
جہاں تک یورپ یامغرب کا سوال ہے وہاں علم، آگہی،شعوراورٹیکنالوجی کی بے تحاشا ترقی اورخاص کرمہذب معاشرہ یعنی سول سوسائٹی کے استحکام نے جہاں قومی ریاست کے قیام کو ممکن بنایا اورجہاں جہاں یہ مسئلہ باقی ہے۔وہاں قومی اقلیت یا منقسم قومیتوں کے قومی اورانسانی حقوق کے بارے میں عملی اقدامات کاآغاز ہوچکا ہے۔چونکہ مغرب اوریورپ میں اییک مہذب معاشرہ قائم ہے اس لئے سوسائٹی میں انفرادی اوراجتماعی بھروسہ،اعتماداورانسانی وقار کی اہمیت کے پیش نظر قومی مسئلے کے حل کے سلسلے میں اقدامات مشکوک نہیں گردانے جاتے اس لئے مغرب اوریورپ میں قومی مسئلہ کی وہ شدت باقی نہیں رہی جو ایک آدھ دہائی قبل موجودتھی جس نے خاص کرمشرقی یورپ میں انسانی نسل کوتباہی سے دوچارکیاتھا۔

ہمارے ہاں خاص کربلوچستان میں گیارہ ستمبر ۱۰۰۲ کے نیویارک ٹریڈ سنٹرپرحملہ اورامریکہ اوراتحادیوں کی عملیات کے بعدگلوبلائزیشن اورملٹی نیشنل کاروباری بین الاقوامی کمپنیوں تجارتی مفادات کے حوالے سے ایک بحث چل پڑی ہے کہ اب قومی سوال یعنی قوم،قومیت اورقومی ریاست کا تصورزوال پذیراور ناکارہ ہوکراپنی حقیقت کھوچکا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے؟ ملٹی نیشنل کاروباری بین الاقوامی کمپنیوں کی عملیات ہی کا دوسرا نام گلوبلائزیشن ہے۔ یہ بنیادی طورپر کیا ہے؟ اس کے اثرات یورپ خاص کر ایشیاء اورافریقہ اورہمارے اپنے ریجن پرکس انداز میں پڑے ہیں اورنتائج کیا ہوسکتے ہیں؟۔ جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔