کلاس روم سے شور پارود تک
میروان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پہلا حصہ
شہدو جان!(ہم اسے ہمیشہ شہدو کہہ کے پکارتے تھے) میں کوئی لکھاری نہیں ہوں، لیکن کبھی کبھی اپنے اندر کے انسان کو جگانے کی خاطر لکھتا بھی ہوں۔ لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ایک دن یہ قلم آپ کیلئے بھی لکھنے پہ مجھے مجبور کرے گا۔ لیکن آج تو میں لکھ بھی نہیں پا رہا۔ دل و دماغ ساتھ نہیں دے رہے، دماغ پہ جیسے تالہ لگا ہے اور منہ سے سوائے آپ کے اور شہید احسان کے نام کے اور کوئی لفظ نکل بھی نہیں رہا ہے، دل کی دھڑکنیں تیز، سانسوں میں اتار چڑھاؤ، لیکن کیا کریں ہم جیسے بزدل آپ جیسے بہادروں کیلئے صرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔
جانتے ہو شہدو جان، آج میں نے سارا دن موبائل بند رکھا۔ جب سب سے پہلے یہ خبر سوشل میڈیا پہ شائع ہوا کہ خاران و قلات کے درمیانی پہاڑوں میں بلوچ سرمچاروں اور فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہادتوں کی اطلاع ہے، تو میرا دل بیٹھ سا گیا کیونکہ ابھی تک ہم شہدائے پروم کے غم سے نکل نہیں پائے تھے اور پھر کل سویڈن سے ساجد حسین کی لاش کا ملنا میرے لیے قیامت سے کم نہ تھا، اس لیے میں اس خبر پہ چاہ کر توجہ نہیں دے رہا تھا کیونکہ مجھ میں اب کسی دوست کے شہادت کا خبر برداشت سے باہر تھا۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ذہن میں خیال آیا کہ ایک دن میں بھی شاید لاپتہ ہوجاؤں یا مارا جاؤں تو کیوں نہ جو باتیں مجھے اپنی ماں سے کہنی ہیں انہیں قلم بند کردوں۔ یہ سوچ کے لکھنے بیٹھ گیا۔ “نمدی وتی مات ء نام ء” نبشتہ کنگ بندات کت۔۔۔۔۔
لیکن مکمل نہیں کر پایا کیونکہ آج پورا دن، مجھے کوئی انجان بوجھ اپنے کندھوں پہ محسوس ہو رہا تھا۔ افطاری کے بعد موبائل آن کیا، سامنے آپ کی اور شہید احسان کی تصویر پہ نظر پڑی۔ ایک دم سانسیں رک گئی، میری چیخ سے میرے ساتھ بیٹھا ہوا کزن چونک اٹھا۔۔۔
چہ بیتگ ادا۔۔۔؟
میرے منہ سے سوائے اس ایک جملے سے کچھ نکل نہیں پایا۔۔۔
“اڑے شہدو تو سرمچار ء بوتگ اے، او پدا انچو زوت نمیران ہم بوتگ اے” (ارے شہداد آپ سرمچار بن گئے ! اور دھرتی پہ فدا بھی ہوگئے)
ہم بلوچ تو دو مئی کے دن کو ویسے بھی شہید فدا کی یاد میں سیاہ دن تصور کرتے ہیں اور آپ کی اور شہید احسان کی شہادت سے یہ دن اور سیاہ اور دردناک ثابت ہوا۔
دل و دماغ میں آپ کی تصویر، یادیں، باتیں اور مسکراہٹیں گردش کرنے لگ گئیں۔
دل و دماغ یہ سب ماننے کو تیار نہ تھے۔
“نہیں یار، شہداد تو ابھی ہمارے ساتھ تھا، وہ یونیورسٹی تعلیم ختم کر کے ابھی تو وطن لوٹا ہے۔ اور سنگت احسان، دونوں سرمچار۔۔۔؟
یقین نہیں آرہا تھا، جلدی جلدی فیس بک کو اوپر نیچے دیکھنے لگ گیا۔ ایک سال پہلے قومی فوج میں شامل ہوگئے؟ شہداد تو کل تک دوستوں کے بیچ بیٹھ کر لیکچر دے رہا تھا۔ اب تو ان سے نوآبادیاتی نظام پہ بہت کچھ سیکھنا تھا، فرانز فینن اور پاؤفریرے کو اس سے بہتر ہمیں کون سمجھا سکتا ہے؟ جلدی جلدی کچھ دوستوں کو میسج کیا۔ تاکہ یہ خبر جھوٹا ثابت ہو۔
(اڑے سنگت اے فیس بک نیوز راستیں، شہداد و سنگت احسان ء شہادت)
دوست نے جواب دیا۔۔۔
تو چہ گوشگ اے؟ شہداد و احسان؟
میں نے کہا۔۔ جی ہو سنگت۔۔۔
کچھ دیر بعد سب دوستوں کی پروفائل پکچر سیاہ ہونا شروع ہوئے، اور پھر کچھ دیر بعد ایک دوست نے میسج کیا۔۔۔۔۔
” سنگت شہداد و سنگت احسان جان پہ وتن سالونک بوت آں۔”
یہ سن کر آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پھر شہداد اور احسان جان کے ساتھ بیتے لمحے ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ سنگت شہداد اور احسان جان سے پہلی ملاقات کب، کیسے اور کس کے ذریعے ہوا یاد نہیں، بس اتنا یاد ہے یونیورسٹی میں دوست بیٹھے تھے، سب اپنا اپنا تعارف کرنے لگے، پھر اس کا باری آیا۔
“منی نام شہداد بلوچ ایں، کیچ ء نندوک اوں، ماسٹر کنگاؤں۔”
دیوان جاری تھا وہ ایک ہنس مکھ چہرا، باتونی، سب سے منفرد لہجہ، بات رک رک کے کرتے۔ گھنے گنگھریالے بال، چھنے والی آنکھیں، چہرے پہ گھنا داڑھی، بلوچی چادر اوڑھے ہوئے، جس کی بھی نظر پڑتی وہ ضرور اس کی طرف متوجہ ہوجاتا۔ اور سنگت احسان کو پہلی دفعہ ایک پروگرام میں جان پایا جب وہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ وقت گذرتا گیا۔ ایک دن اپنے ہاسٹل میں بیٹھا تھا کہ ایک دوست کا میسج آیا۔ صبح کا وقت تھا۔
“سنگتانی سرا پولیس ء لاٹھی چارج کرت ء، لہتے سنگت دزگیر کنگ بوتگ آں۔ لہتے سنگت ٹپیگاں، ہسپتال برگ بوتگ آں۔ وتارا رسین اے، پریس کلب دیم ء احتجاج بیت۔”
اور پھر سوشل میڈیا پہ دوستوں کی تصویریں گردش کرنے لگ گئیں، ان میں ایک تصویر سنگت شہداد کا بھی تھا، جس کے سر سے خون ٹپک کر انکے چہرے پہ بہہ رہا تھا اور لکھا تھا
“علم دو، زندان نہیں”
اور ایک تصویر سنگت احسان کا تھا جو پولیس وین میں ہتھکڑیوں سے بندھا ہوا تھا لیکن چہرے پہ فتح مند ہونے کی مسکراہٹ تھی، احسان اور شہداد آج بھی تو فتح مند ہوئے، شکست اب کی بار بھی دشمن کا مقدر بنا۔ احسان جیل میں تھا اور باہر اس کا ساتھی شہداد پریس کلب کے سامنے اپنی گرج دار آواز میں نعرے لگا رہا تھا۔
“بلوچ طالبعلموں پہ تشدد، نامنظور نامنظور”
بحال کرو، بحال کرو، بلوچ طلبا کو بحال کرو”
پولیس کی غنڈا گردی۔۔۔ نامنظور، نامنظور”
علم دو۔۔۔۔۔۔ زندان نہیں۔”
اور پھر مائک چھوڑ کے وہ دوستوں کو منظم کرنے لگا۔
“سنگتاں وتی لائن برابر کنے”
“آہستہ آہستہ روان کنے”
اور پھر شام کو تمام دوست رہا کر دیے گئے۔
لیکن وہ دن شہداد اور احسان جان کے زہن پہ نقش ہوگیا۔ شہداد اس سے پہلے بھی زندان جا چکا تھا اور سنگت احسان اسلام آباد میں رہ کے بھی زندان سے بچ نہ پایا۔
اگلے دن پھر احتجاج ہوا اب کی بار احسان جان ساتھ تھا۔
“سنگت اگاں میڈیا والا کایاں گڈا کئے گپ جنت”
سنگت احسان میڈیا ہینڈل کنت، شما سنگتاں سمبال ء”
اور پھر چھوٹی چڑیا کے فیس بک پیج سے لیکر پاکستانی الیکٹرونک میڈیا میں سنگت احسان بلوچ طالبعلموں کا مقدمہ لڑتے سب نے دیکھا۔ جس مدلل انداز سے انہوں نے اپنا موقف پیش کیا، وہ احسان جان کے سیاسی شعور اور علم و زانت کا مثال ہے۔ لیکن اس تمام تر احتجاجوں سے کچھ نہ بنا، دوستوں نے تنگ آکر بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔
سنگت احسان اور سنگت شہداد آگے آگے تھے، سنگت احسان پہ بھاری زمہ داری تھی کیونکہ وہ جنرل سیکرٹری تھا، یہ مشکل فیصلہ اتنا آسان نہ تھا لیکن نوآبادکار نے اور کوئی راستہ بھی نہ چھوڑا۔
یہ بلوچ قوم کی قسمت ہے کہ اسے تعلیم کیلئے بھی بھوک ہڑتال کرنا پڑا۔ یوں تو بلوچ بھوک ہڑتال سے اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہورہا تھا لیکن دوست پرامید تھے۔
اسی ہڑتالی کیمپ میں سنگت احسان دن رات بیٹھا رہتا۔ رات دیر تک بلوچ، بلوچستان، سیاست، کتاب، شاعر موضوع تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے خان زمان کاکڑ نے سنگت احسان سے پوچھا۔۔
“احسان یار، آپ یوں دانشمندانہ طریقے سے بات کیسے کر لیتے ہو؟
احسان مسکرایا اور گویا ہوا،
“ہمارے حالات نے ہمیں سکھایا ہے”
اور واقعتاً انہی حالات نے احسان اور شہداد کو علمی درسگاہ سے بولان کا راستہ دکھایا۔
“اڑے یار سگریٹ نیست؟” شہداد ایک دوست سے پوچھ رہا تھا
“ہو جان، کیپسٹن گنج انت” دوست نے جواب دیا۔
“اڑے یار کیپسٹن نو کشگ ای چیز اے، واقعی غریب ء چک ء ہچ ندیست ء” شہداد کے اس جواب سے سب دوست ہنسنے لگے۔
اور آج بھی شہداد نے مسکرا کے وطن مادر کو گلے لگایا ہوگا۔
جاری ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔