بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کے روزسرمچاروں نے دشت میں میرانی ڈیم کے قریب جلابانی کے مقام پر پاکستانی فوج کے قافلے کی پکٹ سیکورٹی پر حملہ کرکے دو اہلکاروں کو ہلاک کیا۔
کل ہوشاب اور بالگتر کے درمیان ریسو کے مقام پر قائم فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ حملے میں ایک اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہواہے۔
ان علاقوں میں سی پیک منصوبے کی حفاظت کیلئے کئی کیمپ اور چوکیاں قائم ہیں، یہ منصوبے بلوچ قوم کی زیست و بقا کا مسئلہ ہیں کیونکہ ان منصوبوں کے تحت قابض ریاست پاکستان لاکھوں غیر بلوچوں کی آبادکاری کا منصوبہ بناکر بلوچ قوم کو اپنے ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
اگر ہمیں بحیثیت قوم زندہ رہنا ہے تو ہمیں ان منصوبوں کو ناکام بنا کر پاکستان سے آزادی حاصل کرنا ہے، جو بلوچ قوم کا نام استعمال کرکے قوم پرستی کے لبادے میں پاکستان کی پارلیمان میں بیٹھ کر پاکستان کو مضبوط کر رہے ہیں ان سے چھٹکارا وقت کی عین ضرورت ہے، اگر ہم پاکستا نی نظام کو بلوچستان میں مضبوط کریں گے تو اس کا مطلب و نتیجہ یہی ہوگا کہ بلوچ من حیث القوم باقی نہیں رہے گا۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پر جبراََ قبضہ اور پاکستان کی کالونی بنانے کے بعد بلوچ قوم پر انتہا قسم کی مظالم جاری ہیں جس میں ہزاروں بلوچوں کو قتل کیا گیا ہے اور ہزاروں آج بھی پاکستانی خفیہ زندانوں میں غیرانسانی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ یہ سب واقعات دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ بیرونی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور اداروں پر بلوچستان میں داخلے پر پابندی عائد ہے اور مقامی میڈیا آئی ایس آئی کے پیرول پر چل کر بلوچستان میں جاری پاکستانی مظالم پر پردہ ڈال کر ’’سب کچھ اچھا ہے‘‘ کا رٹ لگا کر پیسوں کے بدلے میں اپنا ضمیر بیچ کر صحافت کے مہذب پیشے کو گروی بنا چکے ہیں۔
چوبیس اکتوبر سے اس کنٹرولڈ میڈیا کے بائیکاٹ کا مقصد صحافیوں کو آزاد اور طاقتور بنانا ہے، کراچی سے آرمی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں طلبا اور کمسن بچوں کے اغواکی خبر بھی کہیں پر جگہ نہیں بناپائی کمسن بچوں کو اس طرح اغوا کرنا پشاور اسکول کے واقعے سے زیادہ گھمبیر ور دلخراش ہے مگر بلوچ نسل کشی میں ریاستی فوج کا ساتھ دینے والے میڈیا نے وہی کردار ادا کیا جس کی توقع تھی اور ہم اسی طرز کے خلاف احتجاج پر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان واقعات کے خلاف ہڑتال میں ٹرانسپورٹرز کی جانب سے مدد کا شکر گزار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ کراچی سے اُٹھائے گئے بچوں کی بازیابی تک وہ ہمارا اسی طرح ساتھ دیں گے اور خلاف ورزی کرنے والے اپنے نقصان کا ذمہ دار خود ہوں گے۔