عاشقِ وطن میجر پیرک جان – زیردان بلوچ

843

عاشقِ وطن میجر پیرک جان

تحریر: زیردان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب بات تاریخ کی ہوتی ہے، اس تاریخ کو وہی لکھتے ہیں جنہیں اپنی ذات سے زیادہ قوم اور سرزمین عزیز ہوتے ہیں ، بلوچ مادر وطن پر ایسے کئی نام ہیں جنہوں نے تاریخ پر تاریخ رقم کی ہیں، ان میں سے ایک نام نورا بلوچ عرف پیرک جان ہیں۔

میری اور پیرک جان کی ملاقات دو ہزار تیرہ میں ہوئی تھی، یہ وہ وقت تھا، جب پیرک بلوچ کے پاؤں میں گولی لگی تھی. ہمارے ملاقات ایک ہی کیمپ میں ہوئی تھی، آج میں اپنے آپ کو خوش قسمت اس لیے سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسے انسان کی خدمت کا موقع ملا تھا. اس وقت پیرک جان زخمی تھے، ٹریٹمنٹ چل رہا تھا تو کبھی میں خود اسکے جھونپڑی میں جایا کرتا تاکہ چائے یا پانی کی ضروت ہو، کبھی وہ خود مجھے بلاتا تھا۔

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب ان سے مجلس ہوتا تھا تو باتوں باتوں میں یہی پوچھتا، آپکا علاقہ کیسا ہے، سنا ہے جب زلزلہ ہوا ہے پاکستانی فوج بڑی تعداد میں آیا ہے، آپریشن کر رہا ہے ، تو دوستوں کو کہیں اپنے آپ کو سنبھالیں اور عوام کا بھی خیال رکھیں. جب عوام آپکے ساتھ ہیں تو یہ کچھ نہیں کر سکتا، یہ میری پہلی ملاقات تھی نام پہلے کئی بار سنا تھا۔

بعد میں کئی بار پیرک جان سے ملاقات ہوئی تھی، بلیدہ بالگتر کولواہ زامران آواران اور مشکے میں جب پیرک جان سے ملتے، ملتے ہی حوصلہ مزید بلند ہوتا تھا. جب اور کہیں ملتے ایک ساتھی کے ساتھ محو سفر تھے، وہ لیڈر، کمانڈر سے زیادہ ایک مہربان سنگت تھے۔

ایک سال سے پیرک جان سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوتا تھا، جب دوستوں سے اسکی خیریت پوچھتے تو یہی کہتے تھے ہاں ٹھیک ہے موبائل نیٹورک میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ ہر وقت پارٹی کاموں میں مصروف اور سفر پر تھے۔

پیرک بلوچ کے قریبی دوست پہلے شہید ہو چکے تھے، وہ بھی بہادر تھے، جنگجو تھے، ہر وقت اپنے کام میں مگن تھے. چیسل جان، سمیر جان، مراد جان ، کوہی جلال جان ہر کسی کا اپنا مقام تھا، جب پیرک جان سامنے تھے، محاذ پر تھے یہی امید اور حوصلہ تھا، وہ کل پھر قوم کو چیسل سمیر لا دیگا لیکن یہ بد قسمتی تھی جب میں صبح سویرے اٹھا بعد میں کسی دوست کا کال آیا تو یہی کہہ رہا تھا کہ پروم کے علاقے میں فوج اور سرمچاروں کی جھڑپ کی اطلاعات ہیں، جنگ جاری ہے، ہماری یہی دعا تھی اللہ سرمچاروں کی حفاظت رکھنا۔ بعد میں وٹس اپ سوشل میڈیا پر بار بار یہی پیغام آ رہے تھے طویل لڑائی میں پاکستانی فوج کے بہت سے سپاہی مردار ہو چکے ہیں اور چار بلوچ سرمچاروں کی شہید ہونے کی خبر بھی نظروں کے سامنے گذرنے لگی۔ بعد میں پیرک جان کی اور اسکے دوستوں کی شہادت کا خبر آنے لگی، لیکن دل مان نہیں رہا تھا. یہ نہیں ہو سکتا! دل کو بہلا رہا تھا، یہ جھوٹ ہوگا، پیرک جان ہمیں ایسے کبھی نہیں چھوڑ کہ تنہا نہیں کریگا.

ہزار سوال، ہزار جواب ایک ساتھ جنم لے رہے تھے، آخر ایک دوست سے رابطہ ہوا، اس نے تفصیل بتائی اور آخر میں نےدوست کو کہا شہادت کی خبر جھوٹ نہیں ہوتی …..

شہادت عظیم سپوتوں کو مبارک ہو پھر فون کاٹ لیا، ہر طرف پریشانی ہی پریشانی تھی، دوست، سنگت، عزیز، رشتہ دار اسلئے پیرک جیسے انسان کا کھونا کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہے، ایسے انسان کی جگہ کو پُر کرنا صدیاں در کار ہوتی ہیں۔

کل یہی بات سننے کو ملا پیرک جان نے بلوچ قوم کے نوجوانوں اور لیڈروں کے نام اپنا آخری پیغام ریکارڈ کیا ہے، وہ جلدہی شائع ہوگی . جب ریکارڈ کئے گئے باتیں سننے کو ملا جو پریشانی و نا امیدی تھی سب کوسوں دور چلے گئے. ایک ایسے حوصلے نے پھر سے جنم لینا شروع کردیا ہم پہلے ایک ساتھ تھے آج بھی ہیں ، کل بھی ایک ساتھ ہونگے . اور یہ جنگ جاری رہے گی تو جیت ہماری ہوگی .
تو اسی وقت مجھے بلوچی زبان کے نامور شاعر واجہ عطا شاد کا شعر یاد آیا
تو پہ سرانی گُڈگ ءَ زند ءِ ھیالاناں کُشے
پہ سندگ ءَ داشت کن ئے پُلّاں چہ بوہ تالانی ءَُ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔