بلوچ قوم اپنے حقوق اور زندگی کے حوالے سے محفوظ نہیں ہے۔ جس کا حقیقی حل جبری لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔ یہ امر بین الاقوامی برادری کی جانب سے بلوچستان میں جنگی جرائم کی حد تک انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور متنازعہ حوالے لب کشائی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں کیا۔
دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3944 دن مکمل ہوگئے۔ قلات سے میر خان محمد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی پرامن جدوجہد عالمی سطح پر قبولیت اور پذیرائی میں مزید وسعت آسکتی ہے۔ جس کا نتیجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت مختلف اداروں اور عالمی فورمز میں پاکستانی حکمرانوں پر لواحقین کے مسئلے کو وہاں کی عوام کے خواہشات کو بین الاقوامی قوانین کے تحت حل کرنے کا دباو بھی بڑھ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ عالمی طاقتوں کی گہری دلچسپی سے ہی یہ بہتر طور پر ممکن ہے مگر انتشار عالمی سیاست میں اسے بعید از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جبکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے اب اقوام متحدہ بھی ماضی کی طرح خاموش نہیں رہ سکے گی جہاں پہلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق اور لاپتہ افراد سے متعلق کمیٹیوں میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شور مچانے والی پاکستانی ریاستی قوتوں کو بلوچستان میں جارحیت کی پالیسی میں تبدیلی لانا پڑے گا اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پاکستانی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی انہیں بین الاقوامی سطح پر مزید مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب پاکستان کو بحران زدہ ریاست کے طور پایا جاتا ہے جس کا مستقبل مخدوش اور ایک ناکام ریاست کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔