خاموش اکثریت اور بلوچستان
تحریر: سفرخان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
معاشرے کی بھی شخصیت ہوتی ہے، اپنی فکر، مزاج اور جبلت ہوتی ہے۔ جو معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اپنی فکر، عمل اور شخصیت سے اجتماعی سوچ پر اثرانداز ہو سکتا ہو۔
انسان کی طرح معاشروں کے مختلف روپ ہوتے ہیں، قدامت پرست، جدت طراز، استعماری، فلاحی، بہادر، بزدل، معتدل، انتہا پسند، سمجھوتہ کرنے، ظلم سہنے والا یا ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا، حساس، بے حس، خاموش یا رد عمل دینے والا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخصیت کی طرح معاشرہ بھی رنگا رنگ کردار کا حامل ہوتا ہے۔ رنگ، نسل، زبان، تاریخ، جغرافیہ، ثقافت، روایات کے تانوں بانوں سے بنا چہرہ ہی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، کس طرح مسائل سے نمٹتا ہے، وسائل کو کیسے استعمال کرنا ہے، فرد اور خاندان کو کتنی اہمیت، تشکیل شدہ نظام معاشرتی اکائی کیلئے کتنی اور کیسی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ثقافتی گھٹن اور معاشرتی قدغن میں بکھری بکھری سرگوشیاں کسی بھی وقت چیخ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، ایسی ہولناک چیخ جو معاشرے کو تہہ و بالا کر دے
خاموش اکثریت کسی ملک یا گروہ میں لوگوں کا ایک غیر واضح بڑا گروہ ہوتا ہے جو عوامی سطح پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ جو سیاسی طور پر بے باک، بے ساختہ یا فعال نہیں ہوتے انہیں اکثریت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
اس اصطلاح کو امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 3 نومبر 1969 ء کو ایک ٹیلی ویژن خطاب میں مقبول کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا، ”اور تو آج رات آپ کے لئے، میرے ساتھی امریکی بڑی خاموش اکثریت آپ کی مدد کے لئے دعا گو ہے۔”
اس استعمال میں اس نے ان امریکیوں کا حوالہ دیا جو اس وقت ویت نام کی جنگ کے خلاف بڑے مظاہروں میں شامل نہیں ہوئے، جو جوابی کلچر میں شامل نہیں ہوئے، اور جنہوں نے عوامی گفتگو میں حصہ نہیں لیا۔ نکسن نے دیگر بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر مڈل امریکیوں کے اس گروپ کو زیادہ بے باک اقلیت کے ذریعہ میڈیا میں زیر سایہ ہونے کی حیثیت سے دیکھا۔
خاموش اکثریت ہر وقت خاموش ہوتا ہے نا وہ باقاعدہ کسی سیاسی اکٹیویٹیز میں حصہ لیتے ہیں ناہی وہ باقاعدہ کسی پارٹی یا آرگنائزیشن کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا کام ہوتا ہے بس سیاسی اکٹیویٹیز میں صرف ان کا جھکاؤ کسی ایک جانب ہوتا ہے۔
اس وقت بلوچ سیاست پہ اگر ہم ہلکی نظر دوڑائیں تواس وقت بلوچ سیاست دو پہلوؤں میں ہمیں نظر آتا ہے ایک وہ ہیں جو پارلیمانی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں ان کے مطابق بلوچوں کا مسٗلہ صرف ساحل و سائل کا ہے اور پارلیمنٹ کے ذریعے بلوچوں کو حقوق دینا چاہتے ہیں (ڈیتھ اسکواڈ سمیت پاکستان نواز جتنے بھی گرو یا پارٹیاں ہیں انہیں ہم پارلیمنٹ پرستوں کے کوٹے میں لیتے ہیں کیونکہ ان گرؤہوں کو انہی کی مدد حاصل ہے۔)
دوسری جانب وہ پارٹیاں ہیں جو تشدد کے ذریعے بلوچوں کے مسئلہ کا حل چاہتے ہیں، ان کے مطابق بلوچستان پہ پاکستان نے قبضہ کیا ہے اور پاکستان بلوچوں کی ثقافت، تاریخ اور بلوچوں کی نسل کو ملیا میٹ سے مٹانا چاہتی ہے اور وہ بلوچوں کے مسئلے کا حل صرف اور صرف بلوچستان کی آزادی کو سمجھتے ہیں۔
وہ جو خاموش اکثریت ہوتا ہے، کسی ملک یا گروہ میں لوگوں کا ایک غیر واضح بڑا گروہ جو عوامی سطح پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا بلوچستان میں ان کا جھکاؤ کس جانب ہے اگر ہم بلوچستان عوامی جھکاؤ کی بات کریں تو بادی النظر یہ دیکھنے کو ملتا ہے جو عام عوام ہے وہ مفقود الخبر ہے یہی ان لوگوں کی خاصیت ہوتی ہے جو دکھائی نہیں دیتے مگر وہ ایک بڑی طاقت ہوتے ہیں۔
ہم اگریہ کہیں کہ اس وقت خاموش اکثریت کا جھکاؤ بلوچ آزاد پسندوں کی جانب ہے تو ہمیں اس حوالے سے ضرور کچھ دلائل دینے ہونگے یا ہم کہیں کہ پارلیمنٹ پرستوں کی جانب ہے تو پھر بھی دلائل دینے ہونگے۔
اگر مجھ سے کوئی اس حوالے سے پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ خاموش اکثریت کا جھکاؤ بلوچ آزادی پسندوں کی جانب ہے۔
فرض کریں اس وقت اگر آپ کسی ایک کے سامنے دو آپشن رکھ دیں، جن میں ایک یہ ہے کہ آپ آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو جواب ایک ہی آئیگا آزاد رہنا، دوسری بات شہید اسلم بلوچ کے جوانسال بیٹے ریحان اسلم کے بارے میں کسی سے بھی پوچھ لو وہ کون ہیں جواب صرف ایک ہی آئیگا وہ ہمارے قومی ہیرو ہیں، تیسری بات آج آپ کسی سے بھی پوچھ لو ڈاکٹر اللہ جیسا کوئی رہنما بلوچوں میں تھا یا ہے تو جواب ایک ہی آئیگا نہ ہی تھا نہ ہی ہوگا، چوتھا اگر آپ کسی سے بھی پوچھ لیں سرمچار آپ لوگوں محافظ ہیں یا دہشتگرد یا ڈاکو تو جواب ایک ہی آئیگا یہ تو ہمارے ہیرو ہیں انہوں نے اپنے سب کچھ چھوڑ دیا ہے ہمارے لئے، یہ سب خاموش اکثریت کی باتیں ہیں۔
گذشتہ دنوں میں کسی بلوچ خواتین سے بات کر رہا تھا تو اس نے مجھے بتایا کہ آج ہمارے گھر میں قرآن خوانی کی جارہی ہے میں نے وجہ جب پوچھا کیوں اور کس لئے تو جواب میں آیا بلوچ سرمچاروں کی سلامتی کے لئے حالانکہ نہ ان لوگوں کو تعلق کسی سیاسی یا مزاحمتی پارٹی سے ہے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی یا مزاحمتی تنظیم کے اکٹیوٹیز میں حصہ دار ہیں، ان لوگوں کا تعلق صرف اور صرف خاموش اکثریت سے ہے۔
میں ایک اور حوالہ ادھر دینا چاہونگا کہ جب پاکستانی میڈیا پہ یہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ ڈاکٹر اللہ نظر کو شہید کیا گیا ہے، پورے بلوچستان اس کے بعد بے چینی کا سماں چھا گیا دوست کہتے ہیں (جنکا تعلق بقاعدہ ایک مزاحمتی تنظیم سے ہے) کہ ہم کسی سفر پہ جارہے تھے کہ کسی پہاڑی علاقے میں جب کسی چرواہے کی نظر ہم پہ پڑی تو اس نے اپنے بکریوں کو چھوڑ کر ہمارے جانب بھاگتا چلا آیا بادی النظر ہم نے اسے دیکھا نہیں تھا تو اس کے پاس سے گذر گئے، تو اس نے چادر اٹھا کر ہمیں اشارہ دینا شروع کیا تھا تو دوست اس کے پاس گئے تو جب اس کے پاس جیسے ہی پہنچ گئے تو اس نے پہلی دم میں ایک ہی بات کو پوچھ لیا واجو (ڈاکٹر اللہ نظر) کیسے ہیں؟ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ تو ایک چرواہا تھانہ ہی وہ کسی سیاسی اکٹیویز میں حصہ دار تھا نہ ہی وہ خود کسی پارٹی کا ممبر تھا یہ تھا خاموش اکثریت اور اس کا جھکاؤ بلوچ آزاد پسندوں کی جانب تھا۔
آج کل بلوچ آزادی پسند وں میں یہ تشویش پایا جاتا ہے کہ عوامی سپورٹ ختم ہورہا ہے، پارلیمانی پارٹیاں زیادہ اکٹیو ہیں، مگر میں یہاں کچھ دلائل دینا چاہؤنگا کہ اگر کیچ جیسے بڑے شہر میں اگر تمام پارلیمانی پارٹیاں جلسے جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں تو ان کے پروگرام میں کتنے لوگ جاتے ہیں مجمع حوالے سے فرض کریں پانچ ہزار یا دس ہزار مان بھی لیں بیس ہزار مگر پورے کیچ کی آبادی کتنی ہے؟ یہ بھی سوچنا چاہیئے اور وہ خاموش اکثریت کہاں ہے اور کس جانب ہے۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ماضی میں سیاسی پارٹیوں کی پالیسی اورحرکات کی وجہ سے بلوچ عوام میں یہ مایوسی پایا جاتا تھا کہ بلوچستان کی آزادی ایک خواب ہے اور لیڈران سمیت پارٹیاں عوامی طاقت کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر اس بیس سال کے دورائینے میں بلوچ پارٹیوں کی جدوجہد اور قربانیوں نے یہ باور کرایا ہے کہ اس وقت بلوچ پارٹیوں اور لیڈراں جو کر رہے ہیں وہ عوامی مفادات کے لئے کررہے ہیں، ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے جو قربانی کا سلسلہ ہے اس کی شروعات شہید واجہ غلام محمد سے ہوا تھا۔
اس وقت بلوچستان میں چھوٹے سے ایک بچے سے لے کر ایک بوڑھے ضعیف العمر شخص تک سب یہ جانتے ہیں کہ پاکستان نے پہ زور شمشیر بلوچستان پہ قبضہ کیا ہے اور آزاد بلوچستان بلوچوں کا حق ہے۔
یہی ہے خاموشی اکثریت اور بلوچستان۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔