گلام ہبر کنگ لوٹیت
تحریر: میروان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس رات حسبِ معمول ہم اپنے کمرے میں تھے کہ اچانک دروازے پہ دستک ہوئی، جونہی دروازہ کھولا تو وہ اپنا دلکش مسکراہٹ لیئے کھڑا تھا۔ ان کا یوں بغیر پیشگی اطلاع کے آنا ہم سب کیلئے مسرت اور ایک انجان خوشی کا سبب بنا۔ وہ اندر آیا تھوڑا سستا لینے کے بعد محفل جم گئی۔ وہ خود ہی سوال اور خود سے جواب دے رہا تھا اور ہم سب خاموشی سے ایک ایک لفظ کو ایسے سن رہے تھے جیسے صدیوں کی پیاس بھجائی جا رہی ہو۔ ابتدائی دور میں جب تعارفی نشست ہوا تو کچھ ایک ساتھیوں نے قوم کی جگہ قبیلے کے نام کا لاحقہ لگایا۔ وہ بول رہا تھا۔ قبیلہ کیا ہے؟ قوم کیا ہے؟ قبیلے کو قوم پہ فوقیت دی جا سکتی ہے؟ قوم جمع ہے اور جمع کی طاقت ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے، قبیلے پہ فخریہ بننا قبائلی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ جہاں ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے افراد سے خود کو برتر سمجھتا ہے۔ اصل میں برتری کا یہ احساس ہی سامراجانہ احساس ہے جہاں کہیں برتری کے احساس جنم لیتے ہیں وہاں برابری کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر ہم بحیثیت قوم ایک ہیں تو ہمارے اندر قبائلی برتری کا احساس ختم ہوجانا چاہیے۔ وہ دوست کچھ پشیمان سا ہوا۔ وہ پھر مخاطب ہوا۔ غلطیوں، کوتاہیوں کا احساس ہی شعور کی بنیاد ہے اپنی غلطیوں کا احساس کرنا، ان پہ تنقیدی نگاہ رکھنا اور ان غلطیوں سے سیکھنا ایک انقلابی عمل ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی غلطیوں، ماضی کی کمزوریوں کو سمجھنا ہوگا، تبھی ہم ایک بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔
جہد کیا ہے؟ تحریک کیا ہے؟ آزادی کیا ہے؟ جہد، تحریک اور آزادی انسان سے باہر کی کوئی چیز نہیں ہے یہ انسانی جستجو ہیں جن کو ایک معتبر عمل (فکر و عمل) سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا کہ میں آزاد ہوں جو بھی کروں۔ جو بھی کرنے کیلئے آپ آزاد نہیں ہیں کچھ سماجی، سیاسی اور معاشرتی دائرے ہوتے ہیں ایک غلام قوم کا کوئی فرزند یہ کہے کہ میں آزاد ہوں جو بھی کروں قوم کے ساتھ ایک گہناؤنا مذاق ہے۔ آزادی تو ایک قومی احساس ہے جو آپ اپنے لیے اور اپنے قوم کیلئے منتخب کرتے ہیں۔ نظریہ بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتا اور عمل بغیر کسی نظریے کے فتح مند نہیں ہوسکتا۔ فتح کیا ہے؟ کامیابی کیا ہے؟ کیا محض چند لوگوں کی ذاتی خواہشات کا حصول کامیابی ہوسکتی ہے؟ یا قومی خواہشات کا حصول اصل کامیابی ہے۔ کیا محض چند انسانی آسائیشوں کی خاطر قومی آزادی سے دستبرداری جائز عمل ہے؟ صدیوں کی قومی جبر، استحصال اور تشدد کے باوجود یہ کہنا کہ سب اچھا ہے منافقت نہیں ہے؟ اگر اس جبر اور غلامی کے خلاف ہم سراپا مزاحمت ہیں تو بحیثیت فرد ہمارا کردار کہاں ہے؟ کیا ہم محض تماشائی بنے رہیں اور دوسرے جہدکار قربانی دیں اور ہم اسکا ثمر سمیٹ لیں یا ہم خود بھی ان مشکلات سے گذرنا چاہیں گے؟ محض اس درد کو جس کو قومی حوالے سے ہم سامنا کر رہے ہیں اس کا احساس رکھنا، اخلاقی حمایت کرنا ہی قربانی ہے؟ یا قومی جدوجہد ہم سے کہیں زیادہ خراج مانگ رہا ہے؟ کیا ہم اس خراج کو ادا کرنے کیلیے ذہنی، فکری، نفسیاتی اور شعوری حوالے سے تیار ہیں؟ کیا ہم موقع پرست نہیں ہیں؟ ریاستی بربریت ایک حقیقت ہے لیکن کیا ہم نے خود بھی اپنے دائرے محدود نہیں کیے؟ کیا ہم سیلف سنسرشپ کا شکار نہیں ہیں؟
اتنے سارے سوالات کی بوچھاڑ نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب خاموش، آنکھیں نیچے کیے بیٹھے تھے، کیونکہ جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ اور پھر اس سکوت کو اس نے خود ہی توڑ دیا۔
ہمارا درد مشترکہ ہے، اس کا حل بھی مشترکہ جدوجہد سے ممکن ہے۔ مشترکہ جدوجہد ایک مشترکہ نظریے کا پابند ہے، نظریہ اگر واضح ہے تو پھر عمل سے ہم کیوں کترا رہے ہیں۔ ضروری نہیں آپ وہ کام کریں جو آپ کیلئے ممکن نہیں۔ آپ وہ کریں جس کی سکت آپ میں ہے۔ اگر لکھ سکتے ہیں تو قومی درد کو زبان دو، اگر پڑھ سکتے ہیں دوسروں کو پڑھنے کی تلقین کرو، ڈاکٹر ہو لاچار و بے بس معاشرے کا علاج بنو، استاد ہو، قوم کے آنے والے نسلوں کوفکری حوالے سے تیار کرو۔
تشدد (مسلح مزاحمت) قومی جبر کے خلاف موثر ہتھیار ہے لیکن واحد راستہ نہیں۔ قومی جبر کو سیاسی، سماجی، معاشرتی، صحافتی،اور تعلیمی مرکبات کو جوڑ کر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
وہ پھر مخاطب ہوا۔ خود نمائشی انقلابی کارکن کیلیے زہر کے مترادف ہے۔ خود کو اس سے بچا کے رکھو، خاموشی سے اپنے عمل کو آگے لے جاؤ، رازداری سے قومی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانا آج کی ضرورت ہے۔ عوام کو جاہل مت سمجھو، عوام ہی طاقت ہے عوام پر اعتماد اور عوام کے اندر اپنے لیے اعتماد پیدا کرو۔ قومی لٹریچر کو عوام تک پہچانے کی ہر ممکن کوشش کرو کیونکہ قومی عمل کے محدود ہونے سے عوام کے گمراہ ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ عوام کو اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہو، عوام کے اندر متحرک رہو کیونکہ سیاسی کارکن کا جامد و ساکت رہنا موت کے برابر ہے۔ حرکت ہی زندگی ہے۔ ہمیں تقدیر پرستی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے عوام کو تقدیر کے حوالے کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنا تقدیر خود لکھنا ہوگا۔ یہ کہنا کہ دشمن زورآور ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے، یہ سب اوپر سے لکھا ہوا ہے وغیرہ تقدیر پرستی کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے اندر اس احساس کو ختم کردو۔ جدوجہد ہم سے ایک نئے انسان کا تقاضہ کرتا ہے نئے انسان سے مراد قبائلی فرسودہ خیالات سے آزاد، قدامت پرستی سے آزاد، محتاج ذہنیت سے آزاد اور سب سے بڑھ کر نوآبادیاتی نفسیات سے آزاد انسان۔ تبھی ہم انقلابی کارکن کہلائے جا سکتے ہیں۔
وہ ایک دم سے رک گیا۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد پھر مخاطب ہوا۔ سنگت اب رخصت چاہتا ہوں رات بہت ہوگئی مجھے جانا ہوگا کہیں یہ نہ ہو کہ دشمن کو میری آہٹ محسوس ہوجائے کیونکہ میں محض قوم کیلئے شہادت کو انقلابی عمل نہیں سمجھتا، بے شک شہادت ایک بہت بڑا رتبہ ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس قومی جدوجہد کو آخری منزل تک پہنچا کے ہی دم لوں۔ کیونکہ چی گویرا کا قول ہے کہ ایک انقلابی کارکن کیلئے ضروری ہے کہ وہ انقلاب کو آخری منزل تک پنچانے تک زندہ رہنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھنا چاہیے۔ رخصت اف سنگت آوارون
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔