البرٹ میمی کا تیونس اور ہمارا بلوچستان
تحریر: میروان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
البرٹ میمی کا شمار نوآبادیاتی نظام کے خلاف لکھنے والے ان مصنفوں میں ہوتا ہے جن کے قلم کی نوک سے مزاحمت کا ایسا چراغ روشن ہوا جس سے نوآبادیاتی نظام کی دیواریں تھر تھرانے لگیں۔ وہ تیونس کا باشندہ تھا اور اس کے ملک تیونس پہ فرانس قابض تھا۔ تبھی اس نے نوآبادکار، نوآبادیاتی نظام اور اس کے زیر اثر رہنے والے مقامی باشندوں کی غلامی، بے بسی، لاچاری، تشدد و جبر اور اس کے سایہ میں پلنے والی مزاحمت کو قریب سے دیکھا۔ اور اس مزاحمت میں انہوں نے اپنا حصہ ادبی شکل میں ڈال دیا۔ ان کی کتاب “کالونائزر اینڈ دی کالونائزڈ” ایک شاہکار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کی اس کے کتاب سے چند حوالے اور پھر ان حوالوں کو بلوچستان سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔
البرٹ میمی لکھتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام دنیا میں ایک ایسی آفت ہے جس سے نوآبادیات(مقبوضہ قوم ) کی زبان، ثقافت، تاریخ، جغرافیائی حدود، تخلیق کار سب برباد ہوجاتا ہے اور مقامی باشندوں کو انسانی اوصاف سے نکال باہر کرکے جانوروں کی جیسی حالات میں دکھیل دیتا ہے۔ جن کے پاس اپنا کچھ نہیں بچتا، جو بھی موجود ہوتا ہے اس پہ نوآبادکار اپنا حق جتاتا ہے اور ان پر اپنی زبان، ثقافت، تاریخ اور روایات کو نافذ کرتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم بلوچستان کا تجزیہ کریں تو ہمارے سامنے سب کچھ واضح ہوجاتا ہے اور البرٹ میمی کا ایک ایک لفظ ہمارے حالات سے مشابہت رکھتا ہے۔ آج ہم سے ہماری زمین چھینی گئی، آج ہم سے زبان، ثقافت، روایات سب کچھ چھینا گیا اور ہمارے تخلیق کار دماغوں کو یا تو رات کی تاریکیوں میں گولیوں سے چھلنی کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں یا آج بھی ہزاروں میں وہ زندانوں میں ہیں۔ آج قومی روایات کی جگہ نفسا نفسی نے لیا، آج قومی روایات کو قبائلی فرسودہ شکل میں ہم پہ تھونپا گیا ہمیں ٹکڑوں میں بانٹا گیا ایک ایسا ریوڑ جس کا کوئی شوانک نہیں اور نہ ہی ہم ایک گروہ سے نکل کر قومی شکل میں خود کو ڈھال سکے۔ جہاں ایک طرف ہماری کمزریاں ہیں وہیں نوآبادکار اپنی جڑیں ہم میں پیوست کر چکا ہے۔
البرٹ میمی لکھتا ہے کہ نوآبادکار قبضہ صرف اور صرف مالی مفادات کی خاطر کرتا ہے نہ کہ دیسی باشندوں کی ترقی کیلئے۔ ان کے لیے مقبوضہ علاقہ ایک ایسی زمین ہے، جہاں صرف لوٹ مار کیا جاتا ہے۔ انہیں دیسی باشندوں سے کوئی سروکار نہیں۔ جس طرح آج بلوچستان کے وسائل کو لوٹنا پاکستان کا مقصد ہے اور اس کو بلوچ سے کوئی سروکار نہیں۔
وہ لکھتا ہے نوآبادکار کو دیسی باشندوں سے کیونکر محبت ہوسکتی ہے، جب وہ معمولی سی مطالبات کے احتجاج پر دیسی باشندوں کو بھون ڈالتا ہے اور یہاں دشمن نے جیونی میں شہید یاسمین کو پانی کی ایک بوند کیلئے گولیوں سے چھلنی کیا، میاں غنڈی کے بلوچ مظاہرین کو بجلی کی دستیابی کے مطالبے پر گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ وہ تو لوٹنے آیا ہے، تشدد کرنے آیا ہے جبر کرنے آیا ہے۔
وہ کہتا ہے بعض اوقات نوآبادیاتی باشندے بھی نوآبادکار کے جھانسے میں آجاتا ہے، جب نوآبادکار ان پہ تھوڑی سی شفقت کرتا ہے جس کو پاؤلوفریرے جھوٹی سخاوت کا نام دیتا ہے، وہ بچا کھچا کچھ دیسی باشندوں کو دیتا ہے لیکن ان کی حقیقی ڈیمانڈ جو آزادی ہے اس پر انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے اور آج ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ سڑک بجلی،سکول ہسپتال، گٹر نالی کو ترقی سمجھ کر قومی آزادی سے دستبرداری کو فائدے کا سودا سمجھتے ہیں نوآبادکار ان کو ایک نوالے کے بدلے قومی جدوجہد سے بیگانہ کر دیتا ہے۔
لیکن دیسی باشندوں کو سمجھنا چاہیے کہ شہر کے وسط میں موجود ایک قلعہ یا پہاڑ پہ موجود دشمن کا ایک مورچہ کیسے پوری آبادی کو کنٹرول کر سکتا ہے اگر دیسی باشندے مزاحمت پہ اتر آئیں تو یہ قلعے، چوکیاں لمحوں میں ختم ہوسکتی ہیں، لیکن بقول پاؤلو فریرے کے دیسی باشندے محتاج زہینت کا شکار بن جاتے ہیں جن کو لگتا ہے وہ نوآبادکار کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے، وہ تو طاقتور ہیں اور ہم کمزور ہیں ان سے کیسے مقابلہ ممکن ہے لیکن البرٹ میمی اسکا بھی جواز ڈھونڈ لاتا ہے کہ نوآبادکار کی تشدد اس حد تک تجاوز کر جاتا ہے کہ دیسی باشندوں کے پاس سوائے موت کے اور راستہ نہیں بچتا ایک دن ضرور آئے گا جب ایک نئی نسل ایسی تیار ہوگی جو انقلابی خصوصیات سے لیس ہوگی اور موت کے بدلے قومی نجات کا انتخاب کرے گی۔ اور حقیقتاً آج بلوچ قوم کی نئی نسل نے موت کا انتخاب کیا ہے تاکہ اس کے بدلے آزادی مل سکے، اور اس راستے پہ گامزن اپنی موت کا فلسفہ آخری گولی کا انتخاب خود بلوچ جہدکاروں نے کیا ہے۔
البرٹ میمی آگے لکھتا ہے کہ نوآبادکار دیسی باشندوں میں آپسی نفرت کو ہوا دینے کی خاطر اقلیتی طبقے کو کچھ انسانی آسائشیں مہیا کرتا ہے اور پھر اسکے بدلے انہیں دیسی باشندوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف کھڑا کرتا ہے، تبھی ہم نے دیکھا فرانسیسی نوآبادکاروں نے تیونس کے اقلیتی یہودیوں کو چند ایک آسائشوں کے بدلے اکثریتی مسلم آبادی کے مخالف لا کے کھڑا کیا، گو کہ دونوں کی زمین ایک تھی، لیکن ہم نے دیکھا یہودی آبادی کو تیونس کی مسلم اکثریتی گلیوں محلوں میں فرانسیسی سپاہیوں کے ساتھ اسلحہ سے لیس گھومتے اور اپنے ہم وطنوں کو قتل کرتے رہے۔
آگے وہ لکھتا ہے کہ نوآبادکار ان زرخریدوں کو بھی پالتو بنا لیتا ہے جو نوآبادکار کے کہنے پہ بھونکتے ہیں ان کے کہنے پہ لوگوں کو کاٹتے ہیں اور پل بھر میں اسلحے سے لیس ہو کر ہم وطنوں کے خلاف اتر آتے ہیں۔
یہاں پر دیسی باشندوں کیلئے ذرا مشکل مرحلہ آتا ہے کہ آیا ان زرخریدوں کو سزا دی جائے یا ہم وطنی ہونے کی وجہ سے معاف کی جائے۔
اسکا جواب گوگی وا تھیانگو اپنے کتاب “ویپ، ناٹ چائلڈ” میں بہتر انداز میں دیتا ہے کہ شروع میں تمام کینیائی عوام کو لگتا تھا کہ تمام سیاہ فام بھائی ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ہمیں معلوم ہوا کہ جو بھی نوآبادکار کا آلہ کار ہے وہ سیاہ فاموں کا بھائی نہیں ہوسکتا، اس لیے ان کے ساتھ بھی اسی طرح سے نمٹا جائے جس طرح نوآبادکار کے ساتھ نمٹا جاتا ہے۔
اگر ہم تاریخی حوالے سے قومی آزادی کے جنگوں کا حوالہ دیکھیں تو اس میں واضح مثال بنگلہ دیش کی جہد آزادی کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والی اور قومی جہد کاروں کے خلاف اقلیتی طبقہ “بہاری” ہمارے سامنے موجود ہے جنہوں نے اجتماعی بنگلہ دیشی مفاد کے برخلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا، اور آخری نتائج میں جب پاکستانی فوج کو عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا تو بہاری نہ تین میں رہے نہ تیرا میں، نہ تو آج تک پاکستان انہیں اپنا شہری ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی بنگلہ دیشی قوم انہیں معاف کرنے کو تیار ہے، اسی تناظر میں آج بلوچ سماج میں بھی زرخریدوں اور دشمن کے آلہ کاروں کی کمی نہیں، سرفراز بگٹی، ثنااللہ زہری، شفیق مینگل سمیت ایسے سینکڑوں کردار ہیں جو دشمن کی زبان میں بلوچ نسل کشی میں شامل ہیں۔
آج جو قومی جدوجہد بلوچستان میں جاری ہے اس میں ہمیں بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ایک طرف نوآبادکار ہماری تاریخ، ثقافت، زبان، زمین سب کچھ ہڑپ کرنا چاہتا ہے وہیں دوسری طرف کچھ ہم وطن بلوچ دشمن کیلیے آلہ کار کا کام کر رہے ہیں، یہاں جو مشکل نظر آتی ہے وہ کہ ان آلہ کاروں کی پہچان، جب پہچان ہوجاتی ہے تو قومی فیصلہ، لیکن اس فیصلے میں جو چیز آڑے آتی ہے وہ بلوچ روایات، جب مسلح تنظیمیں ان آلہ کاروں کو نشانہ بناتے ہیں تو سماج کا ایک حلقہ اس کو ایک اور رنگ دیتا ہے کہ یہ تو بلوچ آپسی جنگ کی طرف جارہے ہیں، کچھ اس کو برادر کشی کا نام دیتے ہیں کچھ ان آلہ کاروں کو معصوم تصور کرتے ہیں، اب ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ جہدوجہد کے اس موڑ پہ جہاں ہزاروں جہدکاروں، سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور عام بلوچ آبادی نے خون کا نذرانہ دے کر اس شمع کو جلا بخشا ہے، ہمیں اپنی روایات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کہ آیا بلوچ روایات جہاں قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں سے سماجی بائیکاٹ یا علاقہ بدر کیا جاتا تھا، سیاہ کار کو علاقہ بدر کیا جاتا تھا آج ہم ان آلہ کاروں کے خلاف ایسا کرسکتے ہیں خاص کر اس شکل میں جب وہ مسلح ڈیتھ اسکواڈ کی شکل میں ہیں آیا انکو آج بھی بلوچ تعریف کی رو سے دیکھنا سمجھنا چاہیے یا انکو بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ کے لحاظ سے انہیں بلوچ تعریف سے نکالا جانا چاہیے
جس طرح اوپر بیان کیا ہے کہ کینائی عوام اور تیونسی عوام آلہ کاروں کو نوآبادکار کے ہم پلہ قرار دے کر انہیں اپنے قومی بھائی چارے سے نکال کر دشمن کی طرح ان سے حساب لیا تو آج ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ جو کاروائیاں مسلح تنظیمیں کر رہے ہیں وہ ہرگز بلوچ کش نہیں ہیں بلکہ وہ دشمن کے آلہ کار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک چیز کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ اس طرح کے سرگرمیوں میں ملوث افراد کو بلوچ روایات کے مطابق سمجھانا چاہیے ان کے خاندانوں کو مطلع کیے جانا چاہیے کیونکہ اگر صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔
اور ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ قومی جدوجہد ہے آزادی سب کی آزادی ہے وسائل سب کے وسائل ہیں ساحل سب کا ہے زبان، ثقافت اور زمین سب کی ہے اور اس کیلیے مشترکہ قومی جدوجہد بھی سب کی زمہ داری ہے اس لیے دشمن کے چھوٹے آسائشوں یا قبائلی تنازعات میں پڑنے سے پہلے ایک بار بلوچ بن کے ضرور سوچیں کہ آیا آپ کا یہ عمل دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے اور قومی مفادات کے برخلاف عمل تو نہیں کر رہے۔
نوآبادکار ہمیشہ دیسی باشندوں کے آپسی اختلافات سے فائدہ ا ٹھانے کی کوشش کرتا ہے قبائلوں کو لڑانا چاہتا ہے، ہماری اجتماعی طاقت کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتا ہے اس لیے ہمیں دشمن کی تمام تر سازشوں اور چالاکیوں اور اپنے ناعاقبت اندیشوں کو باریک بینی سے جانچنا ہوگا۔
یہاں ایک مثال ہوسکتا ہے شاید موزوں نہیں ہو لیکن پیشگی معذرت کے ساتھ کہ آج سے کچھ عرصہ قبل بی اے بورڈ امتحانات میں کچھ بلوچ علاقوں کے طالبعلموں کے نمبر کم آئے تو ہمیں ایک بھونچال سوشل میڈیا پہ دکھائی دیا اور علاقہ پرستی پر مبنی نفرتیں سر اٹھانے لگیں گو کہ وہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا، اس لیے اس کے نقصانات اس طرح سے ہمیں دیکھنے نہیں پڑے لیکن اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسائل پہ دشمن ہمیں لڑانا ضرور چاہے گا، اس طرح کے سینکڑوں مثالیں ہیں جس کو جواز بنا کر دشمن نے قبائلی، علاقائی نفرتوں کو ہوا دینے کی کوشش ضرور کی۔ ہمیں ان تمام تر قبائلی، علاقائی رنجشوں سے نکل کر قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا، اور نوآبادکار کے خلاف مزاحمت کرنا ہوگا کیونکہ مزاحمت زندگی ہے البرٹ میمی ایک جگہ لکھتا ہے کہ دیسی باشندوں کے پاس ظلم اور جبر کے خلاف صرف ایک راستہ بچ جاتا ہے کہ اسے کیسے مارنا ہے تو کیوں نہ دیسی باشندے اس آخری آپشن کا استعمال قومی آزادی کیلے کریں۔ جس طرح ڈاکٹر اللہ نذر اپنے ایک تقریر میں کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے میرے جینے کا اختیار دشمن کے پاس ہے لیکن موت کا انتخاب میں خود کرونگا میں اور میری قوم اس انتخاب کا بہتر استعمال جانتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔