بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ دو دہائی کے دوران مختلف پروجیکٹس کو متعدد حملوں میں نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ حملوں کی ذمہ داری اکثر بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہے۔
ٹی بی پی نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سبی کے علاقے تلی میں تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنی کے اہلکاروں کو بم حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
کمپنی اہلکاروں کو کلگری میں سرمند نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں انہیں جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے تاہم ضلعی حکام کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
رواں مہینے تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں پر تین حملے کیئے جاچکے ہیں جن میں بلوچ ریپبلکن گارڈ کی سبی اور کاہان کے درمیانی علاقے میں میں کپمنی کے گاڑی پر بم حملہ اور کاہان میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے حملہ شامل ہے۔
اس سے قبل رواں مہینے لسبیلہ اور ضلع خضدار کے درمیان کرومائیٹ لے جانے والی ٹرکوں پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی۔
گذشتہ مہینے بھی کاہان کے علاقے کلگری میں تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے قبول کی تھی۔ ترجمان کے مطابق حملے کمپنی پر حفاظت پر معمور اہلکار ہلاک جبکہ ایک گاڑی تباہ ہوئی۔
گذشتہ سال کے اواخر میں ضلع سبی کے علاقے چھامور تنگی میں گیس کے ذخائر دریافت ہوئیں جس کے بعد وہاں پر کمپنی کی جانب سے کیمپ قائم کرکے گیس تلاش کرنے کے کام کا آغاز کیا گیا۔
مذکورہ پراجیکٹس پر کام کرنے والی ماڑی پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں قائم ہے جبکہ کمپنی کی جانب سے اس سے قبل بلوچستان کے علاقوں ہرنائی، زیارت، کوہلو، زرغون اور بیلہ میں براہ راست اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ ملکر تیل و گیس تلاش کرنے اور نکالنے پر کام کررہی ہے علاوہ ازیں مذکورہ کمپنی سندھ کے علاقوں سکھر، کونج، سجل، فضل، ماڑی اور دیگر علاقوں اسی طرح کام کررہی ہے۔
بلوچستان میں گیس و تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں سمیت دیگر تعمیراتی کمپنیوں پر حملوں کا سلسلہ گذشتہ دو دہائی سے جاری ہے، 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعد ڈیرہ بگٹی و دیگر اضلاع میں گیس، تیل اور دیگر تنصیبات پر حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی تھی۔
سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنے سمیت بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر 2018 سے خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔