صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور افغانستان میں موجودہ بد امنی اور طالبان کے پنپنے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا۔
یہ خبر گرم ہی تھی کہ ایک اور خبر سامنے آگئی، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائی میں مزید اضافہ ہوا۔ وہ خبر یہ تھی کہ ماضی میں سابق آمر جنرل مشرف کے دور حکمرانی 2004 میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو انسداد منشیات کے لیے دیئے گئے 5 ہیلی کاپٹر امریکہ نے پاکستان سے واپس مانگ لیئے ہیں۔ جن کا کنٹرول وفاقی وزارات داخلہ کے پاس تھی جو برائے نام اے این ایف ( اینٹی نارکوٹکس فورس ) کے زیر استعمال تھے۔ مگر ان ہیلی کاپٹروں کو پاکستان آرمی بلوچستان میں عرصہ دراز سے معصوم بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشنوں میں استعمال کر رہا تھا ۔ یہ خبر یقیناً پاکستان کے لیے بڑی ذلت و رسوائی کی خبر تھی۔
اب آتے ہیں کہانی کے حقیقی پہلو کی طرف: ہم کو یاد ہوگا کہ 2004/2005 میں اینٹی نارکوٹکس فورس، بلوچستان خصوصاً مکران میں کچھ پھرتی دکھا رہی تھی اور بظاہر منشیات کے تدارک کیلئے آپریشن کررہی تھی، مگر ان چھوٹے پیمانے کے منشیات فروشوں کے خلاف جو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں و فوج کے مکمل تعبیدار نہیں تھے۔ یعنی پاکستانی فوج و خفیہ ایجنسیوں کو بھتہ نہیں دے رہے تھے اور بلوچ آزادی پسند جہد کاروں کی مخبری نہیں کر رہے تھے۔ اے این ایف ان منشیات فروشوں کے منشیات کوپکڑ کر ان کو تلف کرنے یا جلانے کے بجائے تربت میں پھر سے اپنے ایجنٹ یعنی بڑے منشیات فروشوں کے ہاتھوں فروخت کررہا تھا۔
یہاں اے این ایف ( اینٹی نارکوٹکس فورس) وپاکستانی خفیہ ایجنسیاں ایک تیر سے تین شکار کررہے تھے ایک تو یہ کہ منشیات کے خلاف مہم کے نام پر امریکہ و دیگر مغربی ممالک سے ٹھیک ٹھاک رقم وصول کررہےتھی اور انہیں باور کرا رہی تھی کہ ہیلی کاپٹروں کو انسداد منشیات کیلئے استعمال کررہے ہیں، دوئم جو منشیات فروش بھتہ نہیں دے رہے تھےاور ریاست کے لیے کام نہیں کر رہے تھے، انہیں تنگ کرکے اُن سے کام لینا یا ان سے بھتہ لینا شروع کردیا اور سوئم اور اہم بات یہ تھی کہ منشیات فروشوں کو ایجنسیوں نے آپس میں لڑا دیا، ہر گروہ کے پاس جاکرکہا کہ تمہارے منشیات کی مخبری فلاں منشیات فروش نے کی ہے، جس سے خاندانی جھگڑے پیدا ہوئے اور ہرمنشیات فروش کو مسلح کرکے ایک دوسرے کو تحفظ کے نام پر مجبور کیا گیا کہ وہ بلوچ آزادی پسند جہدکاروں کے خلاف کام کریں اور آج اکثر یہی منشیات فروش ہیں جو ڈیتھ اسکواڈ کی صورت میں پاکستانی فوج کی بلوچ نسل کشی میں حصہ دارہیں۔
اگر ایمانداری و باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائےتو پاکستان نے منشتات کے تدارک کے لیئے سرے سے ہی کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا، بلکہ منشیات کا یہ گھناؤنی کاروبار ضیاء کے دور سے ہی فوج کے سرپرستی میں چلا آرہا ہے اور یقیناً امریکہ نے بھی کافی عرصے پہلے اس حقیقت کا ادراک کیا ہوگا، مگر اب ٹرمپ انتظامہ نے بڑے واضح انداز میں پاکستان کو متنبع کیا ہے کہ وہ افغانستان میں بد امنی پھلانے والے دہشتگردوں، نام نہاد جہادیوں کو کنٹرول کرے مگر اکثر مبصرین کا خیال ہیکہ پاکستان یہ تزویراتی اثاثہ جات کو کھبی کنٹرول نہیں کرے گا، کیونکہ پاکستان کی خارجہ و داخلی پالیسی فوج کے ہاتھوں میں ہے اور فوج طالبان کے مختلف گروہ خصوصاً حقانی نیٹ ورک کو عرصہ دراز سے افغانستان میں ایک بلیک میلنگ ٹول کے مصداق استعمال کررہا ہے۔
چلیں آتے ہیں پھر امریکی ہیلی کاپٹرووں کا منشیات کی طرف، یہ بات تو ہر ذی شعور انسان کو معلوم ہیکہ پاکستان میں عملاً و اصلاً حکومت فوج کی ہے اور منشیات جیسے غیر قانونی کاروبار کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم کے تمام کاروبار بینکینگ سیکٹر، لاجسٹک کمپنیاں، ریئل اسٹیٹ وغیرہ فوج کے ہاتھوں میں ہیں اور ان تمام کاروباروں میں فوج کی سب سے بڑی و منافع بخش کاروبار منشیات کی ہے۔
اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ پاکستان میں نصف سے زائد بجٹ فوج خرچ کرتی ہے، بجٹ میں یہ حصہ، منشیات کے کاروبار و دیگر بہت سے زیر زمین کاموں کے علاوہ ہے اس کے علاوہ فوج کا ایک اہم کاروبار اسلامی شدت پسندوں و دہشتگردی کی نرسریاں ہیں۔ ان ہی دہشتگردوں کو پیدا کرنے و پالنے کے لیئے ایک طرف پاکستان دوست خلیجی ممالک سے اسلام کے نام پر رقم لے رہا ہے اور دوسری طرف آگینسٹ ٹیرر ازم اور کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر امریکہ و یورپی ممالک سے انہی شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کے نام پر رقم وصول کرتا چلا آرہا ہے۔
اب اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی فوج ان شدت پسندوں یا منشیات کے کاروبار کے خلاف حقیقی معنوں میں کبھی بھی کریک ڈاون نہیں کرے گا۔ ہم ذیل میں پاکستان فوج و منشیات کے تعلق کے بارے میں زیادہ گہرائی سے بات کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے انسداد و تدارک منشیات یو این او ڈی سی کے اپنے تازہ ترین اعداد و شمار میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 66 لاکھ سے زیادہ ہے ( اس میں بلوچستان کے وہ دور دراز علاقے جہاں اس این جی او کی پہنچ نہیں ہے، وہ شامل نہیں ) 20 کروڑ کی آبادی میں 66 لاکھ شہری آبادی کی منشیات کا عادی ہونا بذات خود ایک انتہائی خطرناک و پریشان کن امر ہے۔
اب آئیں ذرا پاکستانی فوج و منشیات کے کاروبار کے تعلق کا ذرا مزید گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں ۔ سب سے پہلے منشیات کی خام مال سے موجودہ شکل میں ریفائنرنگ اور اس کے بعد اس کی ترسیل و روٹ کے متعلق بات کرتے ہیں۔ یہ بات میرے خیال میں ہر ذی شعور فرد کے علم میں ہے اور اسکا انکشاف بھی 2000 کے عشرے سے پہلے ہوئی ہیکہ پاکستان میں منشیات کے تین بڑے کارخانے، جن میں ایک قبائلی علاقہ جات اور دو بلوچستان کے علاقوں براپچہ و گردی جنگل میں پاکستان فوج و ایجنسیوں کی براہ راست سرپرستی میں پاکستان آرمی کے کچھ سابق و کچھ حاضر سروس ہائیسٹ رینک کے آفیسران کی زیر ملکیت چل رہے۔ افغانستان و پاکستان کے باقی سرد جنگ علاقوں بشمول بلوچستان سے پوست و بھنگ کی خام فصل ان فیکٹریوں میں آکر اور یہاں سے ریفائنڈ ہوکر مشرق وسطی، مغربی ممالک و افریقہ میں براستہ بلوچستان و بلوچ ساحل بھیج دیا جاتا ہے۔ منشیات کی پوری دنیا و خصوصاً بلوچستان میں ترسیل و کاروبار میں پاکستانی حمایت یافتہ و بلوچ تحریک آزادی کے مخالف تمام سردار، ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہان و مذہبی عناصر شامل ہیں۔
اب آئیے اس پہلو پر مزید روشنی ڈالتے ہیں، جنوری 2017 میں روز نامہ ڈان میں ایک رپورٹ شائع ہوا تھا کہ سی پیک کی حفاظت اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی قلع قمعہ و ان کی سرگرمیوں کو محدود سے محدود تر کرنے کے لیے تمام بلوچستان خصوصاً سڑکوں میں 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چیک پوسٹ قائم ہے۔
اب اس سے تو عیاں ہیکہ یہی منشیات بائی روڈ جہاں 5 کلومیٹر پر آرمی کا چیک پوسٹ قائم ہے تو یقیناً پاکستان آرمی کے سرپرستی پر انہی کے داشتاوں کے زریعے سے ہی گزر رہا ہے۔ اصل میں اگر آپ بین الاقوامی ڈرگ مافیا کا کھوج لگائیں تو سب کی کڑیاں کہیں نہ کہیں پاکستانی ایجنسیوں سے ملتی ہیں۔
بد قسمتی سے نہ بلوچستان بلکہ انٹرنیشنل ڈرگ ٹریفیکر سب کے سب پاکستان ایجنسیوں کے بندہ خاص اور کچھ کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے؛ مثال کے طور پر امام بھیل جو کہ منشیات کے جرائم میں امریکہ کو بھی مطلوب ہیں اور عالمی منشیات کے سرفہرست 10 بیوپاریوں میں شامل ہیں، وہ نیشنل پارٹی کے اہم رہنماوں میں سے ایک ہے اور ڈیتھ اسکواڈ بیشتر امام بھیل کے زیر کمان ہیں ۔ وہ انڈر ورلڈ کے گاڈ فادر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے فرزند یعقوب بزنجو پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ واضح رہے امام بھیل کے بیٹے یعقوب اور اس کے ٹھکانوں پر بلوچستان لبریشن فرنٹ دو بار حملہ بھی کرچکا ہے۔ ایک مرتبہ بی ایل ایف کے پارسل بم اٹیک میں امام بھیل کے بیٹے یعقوب بزنجو شدید زخمی ہوئے تھے، دوسری دفعہ کولواہ کے علاقے میں بی ایل ایف نے امام بھیل کے منشیات کے ایک کمپاؤنڈ ( ڈمپنگ اسٹیشن ) پر حملہ کرکے درجنوں ٹن منشیات جلا کر امام بھیل کے کارندوں کا اسحلہ ضبط کرکے پھر بلوچ ہونے کے ناطے اس کے کارندوں کو آئندہ انسان دشمن و بلوچ دشمن سرگرمیاں ترک کرنے کے شرط پر چھوڑ دیا تھا۔
واضح رہے ڈمپنگ اسٹیشن سے غیر ملکی شراب اورماڑہ کے ساحل سے اتر کر پورے جنوبی ایشیا کے لیے ترسیل ہونی تھی اور یہاں سے منشیات پاکستانی فوج کے زیر سرپرستی کشتیوں میں لوڈ ہوکر افریقہ و یورپ کے لیے ترسیل ہوتی تھی۔ اب حال ہی میں کولواہ میں جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں پاکستان آرمی نے اس ٹھکانے کو سرمچاروں سے چھین کر دوبارہ امام بھیل کے حوالے کیا تھا۔
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، نا صرف امام بھیل بلکہ تمام ریاستی ڈیتھ اسکواڈوں کے سربراہان و ریاستی سردار منشیات کے اس گھناؤنے کاروبار میں صف اول کے بیوپاری اور ٹریفیکر ہیں۔ حتیٰ کہ بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری، سردار یار محمد رند، رئیسانی برادران و عاصم کرد گیلو بھی اس میں شامل ہیں۔
اگر ہم گذشتہ دس پندرہ سالوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بلوچ مسلح تنظیموں، خصوصاً بی ایل ایف و بی آر اے نے پے در پے منشیات کے کانوائز و سرکاری حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈوں پر شدید حملے کیئے، جبکہ پاکستانی فوج و ایجنسیاں اپنی سرپرستی میں منشیات و اس کے کاروبار کی ترویج خالی امن و استحکام کو تباہ کرنے بلکہ بلوچ مسلح جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے منشیات و مذہبی شدت پسندی کے لیئے بندوں کی ترویج کرتے رہے ہیں۔
اور آج حال یہ ہے کہ ایک مصدقہ تجزیے و سروے کے مطابق بلوچستان کے 51 فیصد نوجوان منشیات کے کسی نہ کسی قسم کے لت کا شکار ہیں۔
آپ کے علم میں مذید اضافے کے لیے میں یہاں چاہوں گا کہ امام بھیل کے علاوہ بھی کچھ دیگر ریاستی سرپرستی میں بلوچ کش ڈیتھ اسکواڈز کے سربراہان و منشیات کے بڑے بیوپاریوں کا ذکر کرتا چلوں کہ ان میں سے اکثریت کے ٹھکانوں پر مسلح تنظیموں کی جانب سے متعدد بار حملے بھی ہوئے ہیں۔
آج کل منشیات کے جوبڑے بیوپاری ہیں ان میں پنجگور خدابادان کے رہائشی تین برادران کامران، ارشد، شہباز اور ان کے ہمنوا اسماعیل اور دیگر دو برادران سعود و فیصل سرفہرست ہیں۔ حال ہی میں پنجگور میں سویزرلینڈ کے جو جھنڈے جلائے گئے تھے ان میں یہ پانچوں افراد سرفہرست تھے۔
منشیات کے علاوہ عام بلوچ قوم دوستوں کی اغواہ و قتل میں بھی یہ اشخاص سرفہرست ہیں۔ کچھ اور مشہور نام جیسے کہ مقبول شمبے زئی، بجار، قدوس، خدا رحم و فاروق منشیات کے اہم بیوپاری ہیں لیکن اطلاع کے مطابق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی و ایم آئی بلوچستان کے اندر کچھ تبادلے کے بعد مقبول شمبے زئی اور اس کے لوگوں کو سائیڈ لائن کرکے کامران برادران جو کہ شفیق مینگل کے گروہ سے ہیں، ان کو سامنے لایا گیا ہے ( یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ توتک سے اجتماعی قبروں کی برآمدگی کے بعد شفیق مینگل کو سائیڈ لائن یا ایک طرز سے ڈس اون کیا گیا تھا، مگر آج کل شفیق مینگل پھر سے فرنٹ رول پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال سردار عطا اللہ خان مینگل کے آبائی شہر وڈھ کی ایک بار پھر سے محاصرہ و راشن کی بندش ہے۔
کامران برادران و مقبول شمبے زئی و درجہ بالا ناموں و اس کے علاوہ سیٹھ وارث کے منشیات کے کانوائیز پر مسلح تنظیمیں متعدد بار حملے کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجگور میں بی این پی مینگل سے تعلق رکھنے والے حاجی زاہد و پنجگور کے مذہبی عناصر یعنی ملا برادران کا بھی منشیات کے کاروبار میں بڑا ہاتھ ہے۔ یاد رہے کہ ان مذہبی شدت پسندوں کا آئی ایس آئی کے ایماء پر ذگری فرقے سے تعلق رکھنے والوں پر متعدد حملوں کے ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
ان ملاؤں میں عزیز اور اصغر کے نام سرفہرست ہیں جو کہ سوردو قلات کے رہائشی ہیں اور مشہور مذہبی عالم مرحوم مولوی رحمت اللہ کے بیٹے ہیں، جن کا تعلق براہ راست تحریک طالبان سے ہے۔ منشیات کے دیگر بڑے ناموں سے ایک اہم نام آئی ایس آئی کے ہر دلعزیز تحریک طالبان کے اہم کمانڈر مولوی عبدالحئی عرف سیاہ مار ہیں۔
پنجگور تسپ میں منشیات کے ٹائیکون و ڈیتھ اسکواڈ کے اہم کارندے ملا قاسم اسی طرح پنجگور گرمکان میں ملا حفیظ منشیات کے انٹرنیشنل بیوپاریوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ملا حفیظ کے کیمپ نما منشیات کے اڈے پر بی آر اے کے ایک حملے میں اس کا کزن شاہد ولد حسن ہلاک اور حفیظ کے درجن بر کارندے زخمی ہوئے تھے۔
یہ سارے اشخاص جن کا ہم نے ذکر کیا، یہ بلوچستان کے مکران خطے میں صرف پنجگور کے علاقے کے ہیں جو ریاستی سرپرستی میں منشیات فروشی و بلوچ قوم دوستوں کے نسلی صفایا میں ملوث ہیں اگر تمام بلوچستان میں پاکستانی فوج و ایجنسیوں کے منشیات کے کاروبار کا جائزہ لیا جائے تو با آسانی ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ہم نے پنجگور کا ذکر خاص اس لیئے کیا کہ یہ منشیات کا روٹ جو افغان بارڈر یعنی گردی جنگل سے شروع ہوکر بحر بلوچ تک آتی ہے،اس کا مڈل پوائنٹ پنجگور ہے۔
چونکہ ہم اپنے مضمون میں اختصار سے کام لے رہے ہیں اور مستقبل قریب میں منشیات و ڈیتھ اسکواڈ کے نیٹ ورک کے متعلق ایک تحقیقی اور قارئین کے لیے ایک قسط وار مضمون لکھنے کا ارادہ ہے۔
یہاں میں مناسب سمجھوں گا کہ اس عالمی روٹ کے کچھ اور بیوپاریوں اور ٹریفیکر کا نام اختصار سے لے لوں ، جیسا کہ آواران کے ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ علی حیدر محمد حسنی جو سابق نیشنل پارٹی کا ممبر تھا اور اب مسلم لیگ ن کا ممبر ہے، پسنی میں جعفر اور سیٹھ جان محمد گوادر میں حاجی ناصر، حاجی خالد چچا الیاس، ڈاکٹر رزاق اور دیگر ہزاروں نام ہیں جو پاکستان و ایجنسیوں کی زیر سرپرستی منشیات کے عالمی نیٹورک کا حصہ ہیں۔
آج کل تو صورت حال یہ ہے کہ پہاڑی راستوں میں مسلسل بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے منشیات کے کانوائز پر حملے کے بعد اب یہ فوج کی سربرائی میں ببانگ دہل شاہرہ و کوسٹل ہائی وے کا استعمال کررہے ہیں اور آر سی ڈی میں سوراب سے لیکر جیونی اور پھر یہاں سے کوسٹل ہائی وے میں اوتھل سے لیکر جیونی میں فوج کی زیر نگرانی آتے ہیں اور جیونی بدوک کی ساحلوں سے کشتیوں میں لوڈ ہوکر یہاں سے مشرق وسطی و یورپ کے لیے یمن و جبوتی کی ساحلوں تک بھیجا جاتا ہے۔
اس پورے کاروبارمیں پاکستانی فوج و ایجنسیوں کا نہ صرف ایک واضح حصہ ہے بلکہ ایک مکمل حصہ ہے اور یہ تمام نام، جو ہم نے بیان کیے، یہ تو محض فوجی بریگیڈئیرز و کرنلوں کے تلوے چاٹ ہیں۔ اب اس تجزیئے و تمام صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو اس امر کا سمجھنا صریحاً محال نہیں کہ امریکہ نے ہیلی کاپٹروں کے واپسی کے عمل کو کافی دیر سے شروع کیا، کیونکہ پاکستان منشیات کے روک تھام کے نام پر پوری دنیا سے رقم وصول کررہا ہے، الٹا اسی رقم و منشیات کی کمائی رقم و منشیات فروشوں کو بلوچ نسل کشی کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اس پوری صورتحال کو سامنے رکھ کر امریکہ کا پاکستان سے ہیلی کاپٹرز واپسی عمل کو ایک خوش کن عمل اور دیر آید مگر درست آید کے مترادف سمجھا جاسکتا ہے۔