شہید غلام محمد نیشنلزم کے نظریے پر مشکلات کے باوجود ثابت قدمی سے ڈٹے رہے- خلیل بلوچ

403

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ شہدائے مرگاپ کا واقعہ حق و باطل کے درمیان جنگوں کی تاریخ کا ایک ایساباب ہے جس نے بلوچ کی تاریخ، تحریک اور نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے اور بلوچ قوم اور پاکستان کے درمیان ایک ایسی لکیر کھینچی جسے اب کوئی طاقت نہیں مٹا سکتاہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہماری قومی تاریخ میں شہدائے مرگاپ کی عظیم قربانی نے نہ صرف ہمیں دشمن کے سامنے سراٹھاکر جینے کاحوصلہ بخشا بلکہ بحیثیت قوم تاریخ کے سامنے بھی سرخرو کردیا۔ شہدائے مرگاپ چیئرمین غلام محمد، لالا منیر اور شیر محمد بلوچ کی جدوجہد ایک مدت کے لئے نہیں بلکہ بلوچ قومی بقا کے لئے تھی۔ حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی کی تاریخ میں شہدائے مرگاپ ہمیشہ یاد رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین غلام محمد بلوچ نیشنلزم کے نظریے پرمستقل مزاجی سے ہزارہا مشکلات کے باوجود ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ پاکستان اور پاکستانی خوشنودی کے لئے سجدہ ریز باجگزاروں کا بہادری اور دوراندیشی کے ساتھ مقابلہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ جیت ہمیشہ نظریے کی ہوتی ہے۔ یہ غلام محمد کے نظریے کی واضح جیت ہے کہ آج پوری دنیا میں بلوچ سیاسی کارکن اپنے محبوب رہبر کو یاد کررہے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے مراعات کے لئے بلوچ سروں کا سودا لگایا، انہیں کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بلوچ قومی تاریخ میں ان کی روسیاہی ہمیشہ کے لئے لکھا جا چکا ہے۔ مستقبل میں کوئی بلوچ قومی تقدیر سے کھیلنے کی کوشش کرے گا تو وہ تاریخ کے احتساب سے نہیں بچ پائے گا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا گوکہ غیر پارلیمانی سیاست کا اصطلاح بلوچ سیاست میں پرانا ضرور ہے لیکن اس پر ہمیں عمل نظر نہیں آتا ہے۔ جب چیئرمین غلام محمد بلوچ نے بلوچ نیشنل موومنٹ کی بنیاد غیرپارلیمانی سیاست پر رکھی تو اس دن کے بعد پارٹی بلواسطہ یا بلاواسطہ پاکستانی پارلیمان سمیت تمام اداروں سے کسی بھی سطح پر قطع تعلق ہے۔ اس فکر پر آج ہزاروں لوگ پارٹی کاعملی حصہ ہیں۔ قومی آزادی کے لئے عوام کو غیرپارلیمانی سیاست پر قائل کرنا، اس پرعمل درآمد کرانا، عوامی پذیرائی دلانے میں سب سے اہم اور بنیادی کردار چیئرمین غلام محمد بلوچ نے ادا کیا۔ بلوچ قوم نے ان کی آواز پر اس طرح لبیک کہا کہ آج بھی پاکستان کو اپنے نام نہاد انتخابات کے لئے فوجی طاقت کے ذریعے لوگوں کو گھروں سے گھسیٹ کر باہر نکالنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا چیئرمین غلام محمد بلوچ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ پاکستان انہیں زیادہ کام کا موقع نہیں دے گا۔ انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا کہ ”دشمن حتمی فیصلے کی جانب بڑھ رہاہے۔ ممکن ہے کہ ان کی زندگی مختصر ہو“۔ اور بلآخر وہی ہوا جس کا غلام محمد نے اظہار کیا تھا۔ لیکن اس مختصر زندگی میں چیئرمین شہید نے نہ صرف بلوچ قومی رہنمائی کا تاریخ ساز فریضہ انجام دیا بلکہ بلوچستان بھر میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے لئے کارکن اور کیڈر پیدا کئے اور تنظیم سازی کی۔ پارٹی کو بھرپور انداز میں عوامی پذایرائی بھی بخشی جو کام ایک مختصر مدت میں غلام محمد نے سر انجام دیا۔ اس کے لئے شاید عمریں ناکافی ہوں۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان بھانپ چکا تھا کہ شہید غلام محمد بلوچ قومی سیاست کو جس نہج پر استوار کررہا ہے اس سے اس کی قبضہ گیریت کا موت یقینی ہے۔ دشمن پہلے مرحلے میں بلوچ جدوجہد کی قیادت پر حملہ آور ہوا۔ دشمن کا خیال تھا کہ سوچنے والے اور رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والے رہنماؤں کو قتل کرکے وہ بلوچ قومی تحریک کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ شاید دشمن اس حقیقت سے آشنا نہیں ہے کہ فکر قتل نہیں ہوسکتے ہیں۔ غلام محمد آج بھی ہر بلوچ کے دل میں زندہ فکر کی صورت میں زندہ ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ غلام محمد بلوچ اور ساتھیوں کے قتل سے دشمن دو مقصدکے حصول کے لئے کوشاں تھا۔ پہلا یہ کہ تحریک کا خاتمہ کیاجائے، سیاسی کارکن خوف کا شکار ہوکر سرتسلیم خم کریں اور دوسرا یہ کہ غلام محمد کے ساتھی اشتعال میں آکر سامنے آجائیں تاکہ انہیں ختم کرنا آسان ہو۔ دونوں صورتوں میں ناکامی پاکستان کا مقدرٹھہرا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا غلام محمد راست گو، راست فہم اور دوراندیش لیڈر تھے۔ ان کا نظریہ اور سیاست کا جوہر اپنی سرزمین اور تاریخ میں پیوست تھا۔ اس خطے میں جو تحریکیں چلی ہیں غلام محمد ان سے ضرور متاثر تھے لیکن غلام محمد کا فکری منبع اپنی سرزمین اور اپنا قومی نظریہ تھا۔اس خطے کے جدید تحریکوں میں ہندوستان کی آزادی کا جدوجہد سرفہرست ہے۔ ہندوستانی تحریک آزادی کے رہنما قیادت گاندھی مسلح جدوجہد کے حوالے سے ابہام کا شکار تھے۔ وہ بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی انقلابی مسلح جدوجہد کا مخالفت کرتے رہے، مگر دوسری طرف وہ برطانیہ کے دیگر ممالک میں عسکری کاروائیوں کے لئے فوجی بھرتی میں مدد فراہم کرتے رہے۔ ہمارے ہاں میر غوث بخش جیسے لیڈر گزرے ہیں جو اپنے اصولی موقف پر ایک سال تک قائم نہیں رہ سکے اور پاکستانی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوئے۔ لیکن غلام محمدبلوچ نہ ابہام کا شکار ہوئے اور نہ مصلحت پسندی کا شکار، بلکہ تاریخ ساز فیصلہ کرکے تمام اذیتوں کا مقابلہ کرکے شہادت تک اس پر قائم رہے۔

انہوں نے کہا کہ شہدا ئے مرگاپ کی قربانی ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ چیئرمین شہید اورساتھیوں نے جس نظریے اور پروگرام کے ساتھ بلوچ سیاست میں اداروں کی بنیاد رکھی اور قومی جدوجہد کو ایک ادارتی شکل دی اور ہم جس عہد کے ساتھ جدوجہد کا حصہ بنے، آج اس عہد کی تجدیدکرکے آگے بڑھیں۔ اداروں کی اہمیت اور اپنی اپنی حدودتسلیم کرکے آگے بڑھیں,بی این ایم ادارتی سیاست اور ادارتی بقائے باہمی کے فلسفے پر قائم ہے اور ہم قطعا یہ تصور تک نہیں کرسکتے ہیں کہ پارٹی یا جدوجہد میں اداروں کی جگہ شخصی اجارہ داری ہو –