عظمت کا مینار
تحریر: میرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس وسیع و عریض کائنات کے ایک گوشے میں نظام شمسی واقع ہے۔ اس نظام شمسی میں ہمارا سیارہ( زمین) ہی زندگی کی چمک دمک کے ساتھ اپنے محور میں گردش پناہ ہے۔ اس زمین میں ہی ایک باشعور مخلوق زیست کی نیرنگیوں میں رواں دواں ہے۔ اس مخلوق کو انسان کہا جاتا ہے، لاکھوں سالوں کی ارتقاء کے بدولت اس انسان نے اپنے دماغی صلاحتیوں کو استعمال کرکے ترقی و کامرانی کے منازل طے کی ہیں ۔ مگر انسانوں کی اس ہجوم میں چند ہی انسان عظمت کی مینار تک پہنچ پاتے ہیں اور باقی سارے انسان ان عظیم انسانوں کی ثمر سے حاصل ہونیوالی چیزوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں ۔ وہ عظیم انسان اپنی کاوشوں سے ہی ہماری اس زمین کے باسیوں کو بہت کچھ دے جاتے ہیں ۔
شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ عظمت کے مینار ہیں اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے درخشندہ ستارے ہیں۔ شہید کی زندگی ایک فلسفے پر مبنی تھی اپنے عظیم نظریات کے لیے اپنے تحریکی ساتھیوں لالا منیر اور شیر محمد بلوچ شہید کے ساتھ مرگاپ کے تپتے سنگلاخ خطے میں تاریخ رقم کرگئے۔ بلوچ گلزمین میں مرگاپ کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ مرگاپ نے بہت سے معرکے دیکھے ہیں۔ سرزمین کے بہادر فرزندوں نے انگریزوں کے خلاف مرگاپ ہی میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ شہید قائد اور آپ کے ساتھیوں کی مقدس لہو بھی وطن کی آزادی کیلئے یہیں پر جذب ہوئے۔
تاریخ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتی کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو شہید قائد نے بام عروج تک پہنچایا۔ آپ کی ولولہ انگیز جدوجہد نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔ بلوچ قوم کو ایک ایسا رہنما مل گیا تھا جسکی اس قوم کو عرصے سے تلاش تھی۔ آپ کی سحر انگیز شخصیت نے قوم کی خوابیدہ قوتوں کو جگا یا۔ آپ لفاظی سے گریز کرتے تھے۔ دوٹوک اور بے باک انداز میں مگر انتہائی تلاطم کے ساتھ خطاب فرماتے تھے۔ آپ جہاں کہیں بھی خطاب فرماتے تو وہاں بلوچ قوم کا ازدام لگ جاتا۔ آپ فن خطابت میں اعلیٰ معیار رکھتے تھے۔ آپ کو اپنے نظریئے پر پختہ یقین و اعتماد تھا۔ آپ کی شخصیت کے سامنے خودساختہ لیڈروں کی اور تراشے گئے نام نہاد قوم پرستوں کی حقیقت بونوں سے بھی کمتر تھی ۔ بہت سے بزدل و نااہل لیڈر آپ سے ذاتی بغض و جلن رکھتے تھے ۔ آپ کی ذات پر طرح طرح کے بےہودہ الزامات اپنی نجی محفلوں میں لگاتے تھے ۔ کھل کر اور سامنے آنے کی ان میں جرآت و ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ کیونکہ ان بزدل اور مکار نام نہاد لیڈروں کو معلوم تھا کہ بلوچ قوم اپنے اس محبوب رہنما کے ایک اشارے پر اپنی جان بھی قربان کرسکتے تھے ۔ واجہ شہید قائد ایک مستحکم عظیم انقلابی رہنما تھے وطن اور قوم کی محبت میں آپ سرشار تھے۔
شہید قائد بلوچستان اور بلوچ کی آزادی پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے تھے ۔ آپ اپنے اس عظیم مقصد حصول کے لئے شبانہ روز مصروف عمل نظر آتے تھے۔ آپ گل زمین کے چپے چپے پر دورہ کرتے تھے۔ آپ جلسوں میں تقاریر فرماتے، مظاہروں کی قیادت کرتے، اجلاسوں کی صدارت کرتے، کانفرنسوں و سیمیناروں میں شریک ہوتے، بی این ایم کی تنظیمی امور چلاتے، کارکنوں اور بلوچ قوم کے نوجوانوں، خواتین اور بزرگوں سے ملاقات کرتے، آپ ڈسپلین کے سخت پابند تھے اور آزادی پسند کارکنوں کو بھی ڈسپلین کی تاکید فرماتے تھے آپ اداروں کی تشکیل کو بہت اہمیت دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ نے سرفیس کے تمام آزادی پسند تنظیموں اور پارٹیوں کو ایک مرکز میں جمع کیا اور بی این ایف کی تشکیل میں قائدانہ کردار ادا کی۔
آپ خود کو سرمچاروں سے جدا بلکل تصور نہیں کرتے تھے ۔ آپ بلوچ سرمچاروں کو بہت ہی اہمیت دیتے تھے اور انھیں ہیروں کا درجہ دیتے تھے۔ آپ کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔ اور بلوچ سرمچار بھی آپ سے بہت ہی عقیدت و محبت کرتے تھے اور آپ کا انتہائی احترام کرتے تھے، آپ اکثر اپنی تقاریر میں دشمن ریاست اور اس کے حکمرانوں کو للکار کر کہتے تھے کہ بلوچ اگر سرفیس میں مادروطن کی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں تو بلوچ قوم کے عظیم فرزند اور ہمارے سرمچار پہاڑوں میں اسلحہ بدست تم سے برسرپیکار ہیں ۔عظیم قائد کی شاندار جدوجہد سے ریاست اور اسکے کاسہ لیس بہت خائف تھے اور آپ کو راستے سے ہٹانے کے منصوبہ بنارہے تھے۔
بالآخر 9 اپریل 2008 کو ایک منظم منصوبہ بندی اور ایک خصوصی آپریشن کے ذریعہ پاکستانی ISI نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو انتہائی ظالمانہ انداز میں شہید کیا۔ کہتے ہیں کہ اس آپریشن کی براہ راست نگرانی اس وقت کے ISI کے چیف پستہ قد اور گنبد نما سر والے جنرل پاشا نے کی۔ ریاست کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ واجہ غلام محمد شہید کو ختم کرنے کے ساتھ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر ریاست کے حکمراں یہ بھول گئے کہ عظیم تحریکیں اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ختم نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ شہداء کا مقدس لہو تحریکوں کو مذید منظم و ابھار کا ذریعہ بنتے ہیں۔ واجہ شہید قائد اور انگنت شہداء کی منزل بلوچ قوم اور وطن کی آزادی ہے۔ اور آزادی کا چمکتا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ مرگاپ کے عظیم انقلابی شہداء سرخ سلام
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔