کوئٹہ: لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری

142

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج 3929 دن مکمل ہوگئے۔ مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکن منصور بلوچ، شاہجان بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان میں واقع قتل گاہوں نے مہذب دنیا کے ضمیر کو جگانا شروع کیا ہے، پاکستانی حکمرانوں کی بلوچوں پر ڈھائی گئی ظلم و جبر کی داستانوں کی متواتر رپورٹوں پر نہ صرف عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بلکہ بہت سے ممالک سے سرکاری ترجمان بشمول امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بلوچوں سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچوں پر مظالم نے کئی شکلیں اختیار کرلی ہے۔ ریاستی ظلم و جبر کے خلاف برسر پیکار بلوچ نوجوانوں کو فرضی جھڑپوں میں بڑی بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو سیکورٹی اہلکار پوچھ گچھ کے بہانے اٹھاکر غائب کرکے عقوبت خانوں میں سخت تشدد کے بعد ان کو قتل کرتے ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں جبر و تشدد نے بنگالیوں پر 1971 میں ہونے والے مظالم کی یاد تازہ کردی ہے۔ پاکستانی عسکری قوتوں کے مظالم سے تنگ آکر لاکھوں بنگالی ہندوستان منتقل ہونے پر مجبور ہوئیں اسی طرح بڑے پیمانے پر بلوچوں کو ترک وطن کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ خود کو بلوچستان میں محصور سمجھتے ہیں۔ وہ یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں یا عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں۔