بی ایس او آزاد کے مرکزی چیئرمین سہراب بلوچ نے تنظیم پہ پاکستان کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے حوالے عالمی ایک جاری کردہ ایک کھلا خط میں لکھا ہے کہ بلوچستان میں سیاست پیچیدگیوں اور روایات کی جنگ کی آماچگاہ ہے اور پاکستان اور بلوچستان کے تعلقات کی نوعیت کی تاریخ کی وجہ سے سکولوں اور کالجوں میں ہونے والی سیاست کی بھی اپنی جداگانہ نظریہ اور مقصد رہا ہے ۔
انہوں نے کہا آج سے سات سال قبل ۵۱ مارچ دو ہزار تیرہ کوحکومتِ پاکستان کیجانب سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس اوآزاد)کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیا گیا اور تنظیم کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی،حالانکہ مذکورہ فیصلے کا ریاست کی جانب سے سیاسی ورکرز کیساتھ ہونے والے ناروا سلوک میں کوئی تبدیلی نہیں لائی بلکہ ان تمام اعمال کے لئے جواز پیش کیا ۔
چیئرمین نے اپنے خط میں لکھا کہ میرے لکھنے کا مقصد آپ کی توجہ کو ایک پُرامن طلبا تنظیم کیخلاف عائد پابندی کی طرف پر مبذول کرانا ہے اور امید ہے کہ آپ کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے اور انکے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے میں مدد کرے گا۔
انہوں نے کہا بلوچستان کے سیاست میں نوجوانوں کی خلا کو پُر کرنے کیلیے بی ایس او کا قیام1967 میں عمل میں لایا گیا جس نے بعد میں بلوچستان کی سیاست میں سب سے متحرک اور طاقتور حیثیت اختیار کی ۔بی ایس او نے نہ صرف تعلیم کے شعبے میں طالبعلموں کی رہنمائی کی بلکہ قومی اور عالمی زمہ داریوں سے طالبعلوں کو روشناس کیا۔ نتیجتا، اس خطے کے دوسرے حصوں کے برعکس، بی ایس او اپنی لبرل اور سیکولر حیثیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ بجائے اس کے کہ پاکستان ہمسایہ ملکوں میں اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے مزہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھا رہا تھاْ
تاریخ کے اتار چڑھاو میں بی ایس او بھی بلوچستان کے مستقبل کے ھوالے سے نظریاتی اختلاف اور ریاست کی مداخلت کی وجہ سے مختلف دھڑوں میں بٹی رہی لیکن ۲۰۰۴ تین دھڑوں کی انضمام سے بی ایس اوآ زاد قیام میں آیا۔
سہراب بلوچ نے کہا دو ہزار چھ میں بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں بشمول بی ایس او نے بلوچستان کی آزاد حیثیت اور پاکستان کے قبضہ کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے اور لوگوں کو متحرک کرنے اور شعوری آگاہی کے لئے مہم چلائے، ریاست کیجانب سے اٹھتی آوازوں کو دبانے کیلیے تشدد اور انسانیت سوز ذرائع کا استعمال کیا گیاجس میں تنظیمی رہنماؤں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور انھیں پابند سلاسل رکھ کر انھیں جسمانی اذیتوں کا مرتکب بنتے رپے۔
دو ہزار نو میں سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے حکومتی ایماپر ”مارو اور پھینک دو”پالیسی پر عمل پیرا ہو کربی ایس او آزاد کے سینکڑوں سیاسی ورکرز کو جبری طور پر لاپتہ کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئی۔۹جون ۹۰۰۲ میں بی ایس او آزاد کے سابقہ مرکزی وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیاگیا جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔۴۱ اگست دو ہزار چودہ کو اُس وقت کے بی ایس او آزاد کے مرکزی جنرل سیکر ٹری رضا جہانگیر کو تربت میں ماورائے عدالت شہید کیا گیا۔ ۸۱ مارچ دو ہزار چودہ کو اُس وقت کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ کوکئی آدمیوں کے سامنے دن دہاڑے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے جس کے کوئٹہ میں کئی چشم دید گواہ موجود ہیں۔ تنظیم کے سابقہ مرکزی انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کو ۴ اکتوبر ۶۱۰۲ ء کو لاپتہ کیے گئے جو کہ تاحال لاپتہ ہیں۔
پندرہ مارچ 2013 کو پاکستان نے بغیر کسی تفصیلی نقطہ نظر کے بی ایس او آزاد کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیکر اسکی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی. اُس کے بعد بی ایس او آذآد کے رسالوں کو ضبط کیا گیا اور تمام تنظیمی لٹریچر کو ”ریاست مُخالف” قراردیکر اِس پہ پابندی عائد کی گئی, بلوچستان کے درجنوں سکولوں پر فوج نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے اور بلوچستان سکول کو تعلیمی ادارے کیبجائے ملٹری چھاؤنی کا نظاہ بیان کرتی ہیں جس کی سب سے واضح مثال بلوچستان یونیورسٹی ہے جہاں تقریباً سات سو کے قریب ملٹری پرسنل نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے.
پاکستان ریاستی جبر اور دوسرے انسانیت سوزاعمال اور غیر انسانی رویوں کیخلاف ہونے والی عالمی معاہدے کیساتھ عالمی شہری اور سیاسی حقوق،عالمی اقتصادی معاہدہ اورعالمی سماجی اور ثقافتی حقوق جیسے عالمی معاہدوں کا حصہ ہونے کے باوجودپاکستان نہ صرف یو۔این کنونشن کی پامالی کر رہا ہے بلکہ پاکستانی فوج سیاسی کارکنان اور اُن کے خاندان کیخلاف ہونے والے انسانیت سوز جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ایسے جرائم کا ارتکاب انسانی اقدار کی پامالی کے زمرے میں آتے ہیں۔
چیئرمین بی ایس او آزاد نے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات کی سنگینیوں پر توجہ دیتے ہوئے پاکستان کیساتھ اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا جائے اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف ایک عالمی کمیشن قائم کی جائے جو بلوچستان میں ہونے والی پاکستانی مظالم کا غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیق کرے۔تنظیم کے اسیر رہنماؤں کو رہا کرنے کیساتھ بی ایس او آزاد پر عائد پابندی دور کیجائے تاکہ ہم سیاست جیسے بنیادی انسانی حق کو ایک آزاد فضا میں عملی جامہ پہنا سکیں۔