ناکو بخشو – گورگین بلوچ

164

ناکو بخشو

 تحریر : گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شخصیت پرستی اور ذہنی غلامی کو سچائی اور خلوص سے بیان کرنا مجھ ناچیز کی حیثیت میں نہیں، اگر لکهوں تو کمنٹس میں جهوٹا، انبوکس میں دهونس دهمکیوں کوبهی برداشت کرنا پڑےِ گا یا مجهے جهوٹا کہہ کر مجهے مختلف عرفیاں دے کر مجهے میرے نظریئے سے خوفزده کرکے ہمیشہ کیلئے مجهے ذہنی ٹارچر کرتے رہیں گے.

کیا ہم پیدا ہوتے ہی، مختلف زاویوں، ٹکڑوں، نفرتوں، تعصبوں میں تقسیم ہوتے ہیں یا ہم نے عمرانیات کے کائنات میں قدم رکهتے ہی عدم برداشت معاشرے کو اوڑھ کر سچائی سے خوفزده ہوکر اس ناسور بیماری کی طرف چل پڑے؟ جہاں مرتے دم قبر کے لحد تک خود کو کسی کا ذهنی غلام تصور کرکے جینا سیکھ لیا ہے اور یہ جینا جیت هے۔

ہم مفلسوں کیلئے سالوں سال…. ناکو بخشو بهی هماری طرح واجہ کا تصویر اپنے پهٹے پرانے کپڑوں کے جیب میں رکه کر اسکول کے ماسٹر یا هسپتال کے ڈاکسر کا انتظار کرتا رہے گا یا اس خواب کا انتظار کرے گا جہاں ناکو بخشو کے ننھے منے نواسے پوتے اسکول کا راه پکڑ کر الف ب پ کرتے رہیں گے یا کب میرے نادان ناچیز 2 بچوں کے باپ بشام کو سپاہی کی نوکری ملے گی۔

ناکو بخشو ہر مجلس و میدان میں واجہ کے قصے سنا سنا کر زندگی گذارے گا، مفلسی کی زندگی بخشو کی جهونپڑی سے لے کر قبر کے لحد تک اس کا ساته رہے گا لیکن بخشو واجہ کی تصویر پهینکے گا نہیں، ناکو بخشو یہاں تک شخصیت پرستی کا شکار هو چکا ہے کہ مرتے وقت اپنے ننھے منے نواسوں کو آخری بار دیکھنے کے بجائے جهونپڑی میں لگی واجہ کی تصویر کو دیکهتا رہتا هے۔ ان کمزور آنکهوں میں اس تصویر کی بہت سے ندارگ نظر آتے رہتے هیں، جس میں ننھے مننے نواسے اسکول جا رہے ہیں لیکن ناکو بخشو کی آخری آنکهوں کی روشنائی پاس کهڑے ان مایوس اور دنیا سے بے خبر بشام کے ان بچوں پہ پڑتی ہے جو ابهی تک دادا کی بات کا بهروسہ دل پہ لیئے ہوئے ہیں کہ کل اسکول کا ماسٹر آئے گا، ناکو بخشو یہ جهوٹ اور اپنے واجہ کے پیار کو لے کر ہمیشہ کیلے فنا هو جاتا ہے۔

ناکو بخشو کے موت کے بعد حسب روایات واجہ گهر آتا هے، ناکو بخشو کا پالا ہوا دودھ دینے والا بکری واجہ کا مہمانی بنے گا اور ناکو بخشو کے نواسے پوتے فلسطین کے بچوں کی طرح قبر پہ لعنتیں بھیجتے رہیں گے کہ تو جهوٹا تها، تیرے وعدے جهوٹےتهے، ان معصوموں کو کیا پتہ ہم جیتے کسی اور کے حکم سے، مرتے کسی اور کے اشارے پہ ہیں۔

بس یہی جینا ناکو بخشو کے بازار والوں نے سیکها هے، بخشو کے بازار والوں کو یہ معلوم نہیں کہ لوگوں قوموں کی تباہی اور ختم هونے کا باعث شخصیت پرستی اور ذہنی غلامی ہے، شخصیت پرستی وه خطرناک مرض ہے جس کا دوا صرف اور صرف اس کے آقا کے ہاتهوں میں ہوتا ہے، ہمارے اس بے بس غلام معاشرے نے یہ سیکها ہے، سپاہی کے نوکری آئیں هیں کس کو سفارش کرنا هے اور کس کو ملے گا اور ناکو بخشو اسکول اور ماسٹر اور خواب لے کر همیشہ کیلئے سو جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔