بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3916 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی وائس چیئرمین خالد بلوچ، انفارمیشن سیکرٹری ناصر بلوچ، صمند بلوچ، ناصر بلوچ اور وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے خالدہ ایڈوکیٹ نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجتہی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان، طلبا، خواتین، اساتذہ اور بزرگوں کو لاپتہ کرنا نئی بات تصور نہیں کی جاتی ہے کیونکہ گذشتہ بیس سالوں سے جبری گمشدگیاں اتنی تسلسل اور تیزی کیساتھ جاری ہے کہ اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد کے کیسز رپورٹ ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا شاید ہی کوئی گوشہ بچا ہو جہاں سے کسی بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ نہ کیا گیا ہو لیکن لوگوں کی بازیابی کی بجائے مسخ شدہ لاشوں کی انبار لگی ہوئی ہے پاکستانی حکمران اور خفیہ ادارے لاپتہ افراد کے لاشیں پھینکنے کا گھناونا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی المیے پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی راہ دیکھ رہے ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی حراستی قتل کے واقعات نے ان کی امیدوں کا دم گھونٹ دیا ہے۔