حسیبہ قمبرانی کے الم پر ہمارا رقص – فراز بلوچ

491

حسیبہ قمبرانی کے الم پر ہمارا رقص

تحریر: فراز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں بہنیں اپنے والد اور بھائیوں، مائیں اپنے پیارے بچوں کیلئے سڑکوں پر اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ وہ مجبور ہیں، انہیں نکلنا ہی پڑتا ہے کیونکہ جس ملک اور خطے میں بلوچ آباد ہیں، وہاں تو دن دھاڑے لاقانونیت کی وجہ سے سینکڑوں لوگ قتل کیئے جاتے ہیں، جبری طورپر لاپتہ کیئے جاتے ہیں، حق کی جائز آواز دبا دی جاتی ہے، شلوار کھینچی جاتی ہے، مونچھیں آدھی کاٹ دی جاتی ہیں، گھر کے دہلیز پر کھڑے ہوئے کے بھی شناخت کا پوچھا جاتا ہے، پگڑی، نقش و نگار سدری، اور روایاتی لباس پہننے پر ایک ادھا گھنٹہ دھوپ پر سزا کیلئے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانے پر ایک دو درجن فوجی چیک پوسٹوں پر ذلیل ہونا اور بے عزتی سہنا پڑتا ہے، کہیں بھی، کسی بھی مشکوک معاملے پر اگر انہیں لگا تو غائب بھی کیئے جاسکتے ہیں۔ سبب اور ناانصافی کا نعرہ لگانے اور پوچھنے پر الٹا لٹکایا جاسکتا ہے، زیادہ بحث کی تو مرغا بھی بن سکتے ہو، بلوچ چاہے وہ مرد ہے یا عورت سب کو انسانیت کی نگاہ سے دیکھنا ان کے سلیبس میں شامل ہی نہیں ہے۔ صاف اگر کہا جائے تو کل انہیں بلوچ کی روایات، کلچر، پوشاک، دستار، چھڑی، اور زبان سے نفرت تھی، خضدار کے طالب علموں پر دھماکے کیئے تاکہ بلوچ کی پگڑی، سدری اور باقی روایتی تمام اسباب بلوچ ہی کے خون سےرنگین ہوں۔ دو مارچ کو خون سے رنگین کیا گیا، اور اُسی خون سے سرخ لکیریں کھینچ کر بلوچ کو آج نچایا جارہا ہے۔

بلوچ کس ثقافت اور کلچرل پر فخر کریں، وہ جس کا ایک مخصوص دن متعین ہو، کس روایتی مٹیریلسٹک اور نان مٹیریلسٹک ثقافتی مڈی اور اپنائیت پر بلوچ فخر سے مونچھیں تاو دیں، کیا وہ جن کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگین ہیں، ان کے آنکھیں نیلی ہیں، ان کے زبان پر بلوچ دشمنی اور قتل کے حکم صادر ہوتا ہے، ان کے کہنے اور تعاون کے ساتھ بلوچ بڑی شلوار، پگڑی، سدری، تلوار، چھڑی اور مونچھیں سے تن زیب ہوکر رقص کریں، ناچ گانے پر دھول کی آواز پر اوپر نیچے ہوسکیں، تو پھر اس طرح کلچر منانا اور سجانا بلوچ کیلئے باعثِ شرم ہے۔ بلوچ کیلئے اسکی شناخت کا سوال کرتا ہوا بے زبان کلچر بھی آج ثقافتی گھٹن محسوس کر رہا ہے۔ مگر ہمیں یہ خیال ہی نہیں کہ کیوں ان نوجوان بلوچ اسٹوڈنٹس کو کلچر مناتے ہوئے َخضدار میں تعلیمی ادارے میں شہید، زخمی اور معزور کیا گیا؟

انہیں بہت نفرت تھا، بلوچ کے کپڑے، ثقافت، تہذیب اور کلچرل پر، کیا آج نہیں ہے؟ وہ کیا بغیر کسی مقصد کیلئے بلوچ کو اپنی دھول پر رقص کروا رہا ہے؟ کیا وہ دن بلوچ کو یاد نہیں ہے، جب بلوچ اسٹوڈنٹس پر دستی بم پھینکے گئے، اور بلوچ کو کلچر ڈے منانے پر قبر کے لحد میں اتروایا گیا؟ تو آج جس طرح کلچر ڈے منایا جارہا ہے یہ تو حقیقتاً ریاستی طرزِعمل کا کلچر ہے، وہ صرف بلوچ کو اسی دن کے ہی مناسبت سے بلوچ ہونے کا احساس دیتے ہیں تاکہ بلوچ کو کلچر کو سجانے تک محدود کریں، تو انہی کی مطابق ہم کلچر کو منانے تک محدود ہوچکے ہیں۔ بلوچ کے کلچر کو اپنائیت کا بہت درد ہو رہا ہے۔ بلوچ کے ہاں اب کلچر کو ثقافتی ورثے کے نام سے منسوب کرنا کلچر ہی کیلئے ایک المیہ اور سیاہ دھبہ جیسا شکل اختیار کرچکا ہے۔ مگر کلچر اور ثقافت خون، روئیے، چال چلن، گفتگو، بحث ومباحثہ اور کپڑے میں بستے ہیں، کلچر کو صرف ایک دن منانا اور سجانا عقل مند قوموں کی نہیں، شکست خوردہ، جنگ سے تنگ، مزاحمت سے بیزار اور اپنائیت کی نفسیات سے دور بھاگے ہوئے اقوام کی نشانیاں ہیں۔

ہزاروں اور لاکھوں روپوں سے خوبصورتی سے سجا، دو مارچ کو کلچر ڈے، شال اور کراچی کے ہسپتالوں میں غریبی اور مفلسی سے بیزار سینکڑوں بلوچ کی سسکتی فریاد کو سننے سے قاصر تھا، وہ لوگ کینسر، ذہنی بیماری، کھانسی، ٹی بی، کالی یرقان جیسے بیماریوں سے جنگ لڑتے مر رہے تھے، پیسے کی تنگ دستی سے موت کے بھینٹ چڑھ رہے تھے اور وہاں بڑی پگڑی اور شلور پہنے ہوئے بلوچ کے شیریں مزار، بلوچ ضعیف ماوں کی فریاد سے فراموش بچے دھول کی ہر تال پر رقص کرتے رہے، اپنا بہادری، ہمت اور دبدبے کی للکارا ہوا شوبازی گرم کررہا تھا، پھر بھی بڑی شان سے کہتے ہوئے ہمیں شرم نہیں آتی کہ ہم “چاکرءِ اولادیں۔ ما گُللوڈیں شیرانی”۔

کلچر ڈے کی دلکشی اور ہماری صبحِ طلوع سے لیکر رات کی تاریکی تک کا ناچ گانے، وہاں پریس کلب پر بیٹھے اپنی بھائی اور کزن کی رہائی کا فریاد کرنے والی حسیبہ قمبرانی کی الم اور درد پر رقص کرتی رہی، حسیبہ قمبرانی وہاں بیٹھی روتی رہی، بھائی کا رہائی اور بازیابی کا سوال اٹھاتی رہی اور ہم رقص کی تال پر مگن دنیا کو یہی دکھا رہے تھے کہ بلوچ ایک قدیم تہذیب اور ثقافت کا مالک ہے، بلوچ اپنے ننگ و ناموس کیلئے سر لے بھی سکتا ہے اور دے بھی سکتا ہے، بلوچ اپنی روایات کی عین مطابق اپنی عزت یعنی عورتوں کو اعلیٰ مقام سے نوازتی ہے اور انہیں مقدس سمجھ کر انہیں سڑک پر آنے سے پہلے ان کے ہاتھ کا پلے کارڈز تھام کر لاپتہ بلوچ بھائیوں اور والدین کیلئے آوازیں اٹھاتے ہوئے اپنی بلوچیت پر قائم رہیگا۔ مگر اس دن کلچر دن مناتے ہوئے ہم بھول گئے تھے شاید کہ ثقافت صرف کپڑے پہننے کا نام نہیں بلکہ ثقافت راجی شناخت کا نام ہے، اور شناخت کا ہرگز مطلب اور معنی وہ نہیں ہوتی جس پر فخر کر رہیں۔

ہم نے کب اپنا بلوچ ہونے کا ثبوت دیا، ہمارا بلوچیت کا ثبوت یہی رہا کہ ہم نے سیمع مینگل کو منشیات کے خلاف کرنے پر قتل کیا، ہم نے چھوٹی ماہ رنگ کو دسمبرکے یخ بستہ سائبیریاً ہوا میں کوئٹہ میں ساتھ دینے سے انکار کیا اور وہ حسیبہ قمبرانی کی طرح روتی رہی اپنے والد کی بازیابی کا درد اور آنسو انکھوں میں سجا کر، یا پھر ہم نے ان بلوچ عورتوں کے لاپتہ ہونے پر ایسے اپنی غیرت کو للکارنے کا مترادف سمجھ کر ہمیشہ بلوچ رہنے کا قسم کھایا، کیا تیر مارا ہے ہم نے۔ بس کلچر دن منانا ہی اب بلوچ کا مشغلہ بن گیا ہے، اب اگلے سال تک انتظار ہے، حسیبہ قمرانی روتی رہیں، چھوٹی پھول سی ماہ رنگ کھیل کود کے بجائے پریس کلب کا روح بنیں۔ ہم کلچر کا دن مناتے رہینگے، مونچھیں تاو دیتے رہینگے، دستار اور چھڑی سے زیب تن ہونگے، شلوریں مزید لمبے کردینگے اور اگلے سالوں میں اور بھی بھرپور انداز اور نت نئے طریقے سے منائینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔