بولان میڈیکل کالج اور قوم پرستی کا المیہ
تحریر: امیر ایاز
دی بلوچستان پوسٹ
اس وقت پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی احتجاجی تحریکیں اور مظاہرے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر پچھلے تین مہینوں کی بات کی جائے تو میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کشمیر، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ، سندھ یونیورسٹی جامشورو، گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان، پنجاب یونیورسٹی لاہور، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نوابشاہ، پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین گوجرانوالہ، بنوں میڈیکل کالج، ایمرسن کالج ملتان، بونیر ڈگری کالج اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے طلبہ نے زبردست تحریکیں چلائیں۔ اس کے علاوہ بے روزگار نوجوانوں کے احتجاجوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جو مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگریاں ہاتھ میں لئے روزگار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ نوجوانوں کی بے چینی اور عدم اطمینان میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے حکمران اتنے خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر غداری کے مقدمات درج کیے جارہے ہیں اور انہیں جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ گرفتار طلبہ کی رہائی کے لیے ہونے والے احتجاجوں پر بھی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
بولان میڈیکل کالج کی نجکاری اور احتجاجی تحریک
پاکستانی معیشت کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر حکومت ملک بھر کے 600 سے زائد سرکاری اداروں کی نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے جس میں کئی تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح بولان میڈیکل یونیورسٹی کوئٹہ بھی ان اداروں میں شامل ہے جن کی نجکاری کی جارہی ہے۔ پچھلے دو مہینوں سے یونیورسٹی کے طلبہ اور ملازمین نے ادارے کی نجکاری کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی جس کو 26 فروری کو حکومتی یقین دہانی کے بعد چالیس دن کے لیے موخر کر دیا گیا۔ اس احتجاجی تحریک میں جہاں ایک طرف جرات، بہادری اور لڑنے کا جذبہ دکھائی دیا تو دوسری طرف تحریک کی قیادت کی کمزوری اور واضح لائحہ عمل کی کمی بھی محسوس کی گئی۔ ”تحریک بحالی بی ایم سی“ کے نام سے اس کی قیادت آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن (APCA) اور دو بلوچ قوم پرست طلبہ تنظیمیں کر رہی تھیں۔ APCA کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی قیادت تحریک کے آغاز سے ہی صرف روایتی اخباری بیانات تک ہی محدود رہی ہے۔ مزدور اشرافیہ غریب مزدوروں کو ورغلانے اور ان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر ہمیشہ انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ ڈیل کرتی آرہی ہے۔ غریب مزدوروں کے حقوق پر سودا کرکے امیر بننے والی مزدور قیادتیں اس تحریک کو بھی بیچنے سے گریز نہیں کریں گی۔ بولان میڈیکل کالج کی نجکاری کو روکنے کی اہلیت ان مزدوروں میں ہے جو اپنی محنت سے اس ادارے کو چلاتے ہیں نہ کہ مزدور اشرافیہ کے اندر۔ مزید یہ کہ تحریک کی قیادت APCA کے ساتھ ساتھ دو قوم پرست تنظیمیں بھی کر رہیں تھیں جن کی اپنی محدودیت بھی کھل کر سامنے آئی۔ تحریک کی طلبہ قیادت چونکہ قوم پرست تھی، لہٰذا یونیورسٹی کے تمام طلبہ کو اپنے ساتھ جوڑنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ نجکاری، فیسوں میں اضافے، سکالرشپ کے خاتمے کے خلاف شروع ہونے والی اس تحریک کو شروع دن سے لسانی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا تھا، جس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک اہم وجہ داخلہ سیٹوں کے میرٹ اور کوٹہ سسٹم پر پشتون اور بلوچ قوم پرست طلبہ تنظیموں کے مابین اختلاف تھا۔ اس اختلاف کی وجہ سے بلوچ طلبہ نے احتجاج میں شرکت کی لیکن پشتون، ہزارہ اور دیگر اقوام کے طلبہ اس پورے عمل سے دور رہے۔
کوٹہ اور میرٹ کی روایتی سیاست
بلوچستان کی طلبہ سیاست میں تعلیمی اداروں کی داخلہ سیٹوں کے حوالے سے کوٹہ اور میرٹ کی بحث کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ قوم پرست طلبہ تنظیمیں اس نقطے پر پچھلے چالیس سال سے سیاست کرتی آرہی ہیں۔ پشتون قوم پرست طلبہ تنظیمیں میرٹ پر سیٹوں کی تقسیم چاہتی ہیں، جبکہ بلوچ قوم پرست طلبہ تنظیمیں سیٹوں کو ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کے کوٹے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے حق میں ہیں۔ اگر بولان میڈیکل کالج کی بات کی جائے تو اس ادارے میں 124 سیٹیں ضلعی کوٹے کی بنیاد پر اور 7 سیٹیں ڈویژن کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہیں جبکہ 10 سیٹیں صوبائی میرٹ کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب، سندھ اور کشمیر کے کالجوں میں بلوچستان کے طلبہ کا کوٹہ 39 ہے جس میں صرف 2 خواتین کی سیٹیں صوبائی میرٹ پر اور باقی 37 سیٹوں کو ڈویژن کے کوٹے پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ فاٹا کے لئے 7 سیٹیں مختص ہیں جبکہ اقلیت اور معذور طلبہ کے لئے ایک ایک سیٹ رکھی گئی ہے۔ بیرون ملک طلبہ کے لئے 20 سیٹیں ہیں جن میں دو سیٹیں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے طلبہ کے لئے مختص کی گئی ہیں۔ ویسے تو سیٹوں کی اس تقسیم پر بھی ہمیشہ جھگڑا ہوتا رہتا ہے مگر پچھلے دنوں احتجاج میں بلوچ اور پشتون تنظیموں کا ایک اختلاف بیرون ملک کے طلبہ کی سیٹوں پر بھی آیا جو اکثر اوقات خالی رہ جاتی ہیں۔ پشتون طلبہ تنظیموں کا موقف ہے کہ خالی رہ جانے والی سیٹوں کو میرٹ کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے جبکہ بلوچ طلبہ تنظیمیں ان سیٹوں کو ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر زور لگا رہی ہیں۔ بولان میڈیکل کالج کی سیٹوں کا اجراء 1998 کی مردم شُماری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جو آج کی آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہیں۔ بلوچستان میں ”7300 افراد پر ایک ڈاکٹر“ ہے، جو WHO کے عالمی معیار یعنی ”1000 انسانوں پر ایک ڈاکٹر“ سے خطرناک حد تک کم ہے۔ مگر اس مسلۂ کو قوم پرست تنظیموں نے کبھی مسئلہ سمجھا ہی نہیں اور صرف میرٹ اور کوٹے کے نام پر طلبہ کو اپنے گروہی مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ میرٹ اور کوٹے کے جھگڑے نے طلبہ تحریک کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور ممکن ہے کہ حکومت اس تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کالج کی نجکاری کا عمل تیز کر دے گی۔ لہٰذا اس تقسیم اور قومی تعصبات کا مقابلہ کرتے ہوئے طلبہ کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
سیٹوں پر جھگڑا، مگر ہسپتالوں میں ڈاکٹر ناپید کیوں؟
قوم پرست تنظیموں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم سے تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ طلبہ کو ادارے میں داخل کروا سکیں۔ اس کی وجہ ان کی قومی محبت نہیں بلکہ گروہی مفادات ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرٹ اور کوٹے کی بنیاد پر جھگڑنے والی ان تنظیموں کے ممبران جب ادارے سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فارغ ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے اپنے ضلع میں سروس نہیں کرتے بلکہ ان کی اکثریت کوئٹہ اور ملک کے دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں نوکریاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گوادر کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں صرف ایک گائنی ڈاکٹر موجود ہے مگر آج تک ”کوٹہ کوٹہ“ کی رٹ لگانے والی بلوچ قوم پرست تنظیموں نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا کہ آیا گوادر کی سیٹوں پر داخلہ لینے والے فارغ التحصیل ڈاکٹر اپنے ضلع میں سروس کیوں نہیں کرتے۔ اسی طرح چاغی ضلع میں کل 9 ڈاکٹر موجود ہیں یعنی ”23000 افراد پر ایک ڈاکٹر“۔ یہی حال دیگر بلوچ اکثریتی اضلاع کا ہے جہاں ڈاکٹر جانا ہی نہیں چاہتے۔ اسی طرح ”میرٹ میرٹ“ کرنے والی تنظیمیں پسماندہ علاقوں کے طلبہ کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ میرٹ پر سیٹوں کے اجراء کا مطلب یہ ہوگا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے کوئی طالب علم کالج میں داخلہ نہیں لے سکے گا کیونکہ ان علاقوں کا تعلیمی معیار کوئٹہ شہر اور چند دیگر پشتون اکثریتی اضلاع کے معیار کے برابر ہرگز نہیں۔ پشتون علاقوں کی سیٹوں کے لئے لڑنے والی قوم پرست تنظیمیں موسیٰ خیل، کلا عبداللہ، لورالائی، دکی، ژوب، پشین اور دیگر علاقوں میں صحت کی حالت زار اور ڈاکٹروں کی کمی پر خاموش تماشائی بنی ہیں۔ پچھلے دنوں ژوب کے ایک نوجوان نے ژوب ضلع میں گائنی ڈاکٹر نہ ہونے کے خلاف سول ہسپتال کوئٹہ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا تھا جو ان قوم پرست تنظیموں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ لہٰذا میرٹ کا نعرہ پشتون طلبہ تنظیموں کی تنگ نظری کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جن علاقوں کی سیٹوں کے لئے یہ بلوچ اور پشتون قوم پرست تنظیمیں قومی منافرت پھیلاتی ہیں وہ تمام ڈاکٹر اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹی دینے کی بجائے کوئٹہ اور دیگر شہروں میں پیسے کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور انہیں اپنے اضلاع کے عوام کی زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں۔
بولان میڈیکل کالج کے مسائل کا حقیقی حل
بولان میڈیکل کالج میں یہی قوم پرست طلبہ تنظیمیں ہاسٹلوں پر قبضے کیے ہوئے ہیں اور ادارے میں ان کی تمام سیاست کی بنیاد کمروں پر ہی کھڑی ہے۔ یہ تنظیمیں طلبہ کو مجبور کرتی ہیں کہ اگر انہیں ہاسٹل کا کمرہ چاہیے، تو انہیں، ان کی تنظیم میں شمولیت کرنی ہوگی ورنہ وہ ادارے سے باہر جاکر کسی پرائیویٹ ہاسٹل میں رہیں۔ اسی وجہ سے آج تک بولان میڈیکل کالج کے طلبہ کی نظریاتی تربیت نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے بلوچستان کے اکثر ڈاکٹر انسانیت کی خدمت سے زیادہ ترجیح پیسہ بنانے کو دیتے ہیں۔ ان تنظیموں نے ہاسٹل کے کمروں پر قبضہ کر کے ادارے میں اپنی اجارہ داری قائم کی ہے اور دیگر تنظیموں کے لئے نظریاتی سیاست کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ اگر بولان میڈیکل کالج میں کمروں کی بجائے کیمپس کی سیاست کے لئے میدان بنایا جائے تو ان تمام تنظیموں کے وجود کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ میرٹ اور کوٹے کے نام پر طلبہ کو تقسیم کرنے کی بجائے اگر سیٹوں میں اضافے اور ہر ڈویژن کی بنیاد پر ایک میڈیکل کالج تعمیر کرنے کے لئے جدوجہد کی جائے تو نہ صرف طلبہ تحریک کو تقسیم سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ مگر ادارے پر قابض تنظیموں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ یہ کام سر انجام دے سکیں۔
جس طرح بلوچستان کے طلبہ نے اپنے چھوٹے چھوٹے مطالبات کے لئے زبردست احتجاجی تحریکیں چلائیں، اسی طرح صوبے کے تمام طلبہ کو قومی تعصبات سے بالاتر ہو کر سیٹوں کا آبادی کے تناسب سے اجراء اور صوبے کے تمام اضلاع کے طلبہ کے لئے مزید مواقع فراہم کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ بولان میڈیکل کالج کے طلبہ کو کمروں کی گھناؤنی سیاست کرنے والوں پر بھی سوال اٹھانا ہوگا تاکہ ادارے میں نظریاتی سیاست کے لئے ماحول بنایا جاسکے جو طلبہ کو اتحاد و اتفاق کی جانب لے کر جائے۔ قوم پرست تنظیموں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ہر ڈویژن میں ایک میڈیکل کالج کا مطالبہ، آبادی کے لحاظ سے سیٹوں کا اجراء، ہاسٹل، ٹرانسپورٹ، مفت اور معیاری تعلیم، سکالرشپ کا اجراء، طلبہ یونین کی بحالی سمیت دیگر مطالبات کے لئے تمام طلبہ کو ساتھ ملا سکیں۔ یہ تمام مطالبات اور ان کے لئے جدوجہد وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد، زندہ باد!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔