انٹلیکچوئل کرائسز اور اسٹوڈنٹس پالیٹکس کا اسٹرکچرل خاکہ
تحریر: فراز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ترقی پذیز ممالک میں جہاں بھوک، افلاس، لاچاری، نابرابری، صنفی تفرقہ، امتیازی سلوک غیر مساوی اخلاقیات پر مبنی روایت وغیرہ عام ہوتے ہیں، وہاں سیاست، فسادات، سماجی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی قدغنوں سے بڑھکر کوئی ایسا نظریہ وجود ہی نہیں رکھتا جس کو سیاست سے الگ تھلگ تصور کیا جائے۔
اُن سب کے سماجی مشکلات اور دشواریوں کے حق میں نعرہ بازی کرنا ہی لوگوں کو سیاست سے حاصل کردہ ترجیہات میں عملی صورتحال میں سیاسی نظریہ کو اپناتے ہوئے مثبت انداز میں فائدے میں لاکر کچھ نا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
چاہے سیاست کی نظریات سوشلزم اور نیشنلزم پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، مگر سیاست کو شہری، سماجی، معاشی، ثقافتی، روایتی، جنگی اور ہر قسم کے مشکلات اور معمولات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دیہاتی اور شہری زندگی کے معمولات میں یقیناً فرق موجود ہوتا ہے لیکن دیکھا جائیں تو ترقی پذیز ممالک میں لوگوں کے فریادیں اور اعتراضات سیاست ہی کے سامنے آکر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں، کوئی روتا ہے کہ اُنہیں سننے والا کوئی نہیں، تو کوئی کہتا ہے جس ملک میں وہ بس رہے ہیں وہاں انسانی حقوق کو قصداً پامال کیا جاتا ہے کیونکہ جب بھی کہیں انٹلکچوئل بحران یعنی دانشوروں کا کرائسز وجود رکھتا ہے یا تو پیدا ہوتا ہے تو اس علاقے کے شہریوں کو لازماً مشکلات سہنے ہی پڑ ینگے، تضادات اور فسادات کا مقابلہ کرنا ہی ہوگا۔
اس سے بڑھکر ایک شحض کیلئے سب سے بڑی امید یہی ہوسکتی ہیکہ وہ تب آزاد اور امن سے رہیگا جب اُس کیلئے روٹی، مکان، روزگار اور مساوی برابری کے راستے ہموار کیئے جائیں اور یہ ممکن اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اسے سیاست سے جوڑا نہ جائے۔ اور جس دن بنیادی زندگی کے ضرورت پورے ہوتے ہیں، بقولِ اروندھتی رائے کے ان لوگوں کا جنگ اسی امن کے ساتھ ختم ہوگا، مگر یہ غلط نظریہ ہے، سیاست اور جنگ دنیا کی فنا ہونے تک ساتھ رہینگے، چاہے جتنی بھی دنیا ترقی کرلے۔ کیونکہ جب سیاست کی بات ہوتی ہے تو مطلب یہی ہوگی کہ مسلسل کسی نا کسی طرح زندگی اور بقا سے وابستہ سرگرمیوں کا روزمرّہ مباحثوں کا حصہ بننا۔
مگر اجتماعی اور سماجی مسئلوں، مشکلات اور مفادات کے حصول کیلئے لازمی نہیں ہوتا ہے کہ اِس کا طلبا سیاست سے رشتہ ہو، ہاں البتہ جس سماجی گروہ میں طلبا زندگی بسر کرتا ہے، اُس کے خیالات اور سوچ پر اس کا عمل داخل ہوسکتا ہے مگر طلبا سیاست کا اگر ساختی نمونے اور خاکے کا سیاسی جائزہ لیا جائے تو طلبا سیاست کی بنیادی سیاسی اور نظریاتی ساکھ صرف ایک نرسری کے شکل میں ابھر کر ایک تالے میں بند صندوق میں قید ہوتا ہوا ملے گا، جس میں طلبا سیاست کو طلبا کے سیاسی آگاہی و آشنائی، سیاسی سوچ و شعور، سیاسی مطالعے کی رجحان و پہچان، سیاست کا عوامی حلقوں (جس میں بلاشبہ اسٹوڈنٹس ہی آجاتے ہیں) کیلئے موثر نمایندگی کا مقام بنانے میں کردار ادا کرنا اور کوشش کرنا، اسٹوڈنٹس کے قانونی و نظریاتی حقوق، طالب علموں کا کسی بھی معاشرے میں علمی و سماجی کردار کے واضح فرق کا تعین و اکیڈمک بیانیہ کا تشریح، اسٹوڈنٹس کے ہی مطالبات اور مشکلات کے دائرے میں رہ کر ساختی نمونے کو واضح اور شفافیت دینا، اسٹوڈنٹس سیاست اور طلبا یونینز، تنظیمیں اور کمیٹیوں کا سب سے بنیادی اور اہم کام سمجھا جاتا ہے۔
مگر اس بات پر قطعاً کوئی بھی شاید یقین ہی نہ کرے کہ طلبا سیاست جو ایک نرسری کی مانند ہوتی ہے، اِسے اگر طلبا سیاست کی سیاسی ساکھ کو دُوام اور رُوح بخشنے میں انٹلکیچوئل پیداواری کی غیر زرخیزی کا قصوروار ٹہرا کر پیش کریں تو میرے خیال میں یہ ایک طفلانہ ابہامی سوچ اور طلبا سیاست سے نا واقفیت کے سوائے کچھ نہیں سمجھا جائیگا۔
لہٰذا وہ جو کہتے ہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس سیاست میں انٹلکیچوئل کرائسس کا مسئلہ ہے وہ نیچے دیئے گئے ریفرنسز پر رجوع کریں،
1.Altbach, P. (1968a). students Politics in Bombay. Bombay: Asia
2. Altbach, P. (1974). Students Politics In America. New York: McGraw-Hill
3. Altbach. P. (1982).”Students movements in historical perspective: the Asian case.
4. Barkan. J. (1975), An African Dilemma: University, Students, Development and Politics in Ghana. Nairobi: Oxford University Press.
اس حوالے بلوچوں کا اگر مثال لیں، تو اس بات میں کوئی شک ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بی ایس او اور اس کے سیاست سے بلوچ نیشنلسٹ سیاست کو بہت ہی فائدہ پہنچا ہے، بلوچ طلبا سیاست لاتعداد بار بٹوارے جانے کے باوجود پھر بھی قومی سیاست میں کیڈرسازی، سیاسی پختہ افراد کا قومی سیاست میں تشریف آواری، طلبا سیاست کو موزوں سیاسی گراونڈ کی فراہمی، سیاسی اور عملی ماحول کو رُوح پھونکنے کیلئے اپنی مثال آپ ہے، مگر بی ایس او کو کھبی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ بی ایس او نے کیوں طلبا سیاست میں انٹلکیچوئل کی کمی اور کرائسز پر توجہ نہیں دیا، کوئی یہ کہہ نہیں سکتا بی ایس او ایک انٹکیچوئل بحران سے گذر رہا تھا اور گزر رہا ہے۔ ہاں البتہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ معاشرتی، سماجی، تعلیمی، معاشی، جیوگرافائی، سائنسی، کلچرلال ، تہذیبی اور تفریحی انٹکیچوئل کرائسز کی وجہ سے طلبا سیاست کو سیاسی، دانشمندانہ اور نظریاتی دشواریوں اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ، کیونکہ انٹکیچوئل کا کام ہی ہوتا کہ وہ صحیح اور درست راستے کا تعین کریں، عوامی حلقوں کو تعلیمی زیور کے افادہ بتا دیں، سچ اور غلط کا تلقین کریں، سیاست کو تعلیمی آشنائی سے روشناس کرائیں، طلبا سمیت معاشرتی طبقے کے ہر فرد کو مساوی سمجھیں، حق وباطل کا پیامبر ہو، زمینی اور جیوگرافائی اہمیت کے برائے میں عوام کو آگاہ کریں، مفادات اور بقا کی جنگ کا صحیح تعریف کرپائیں، افلاس اور مفلسی کے سامنے درپیش مشکلات کا وجوہات اور سولوشن ڈھونڈنے میں مدد کر سکیں اور انٹکیچوئل طبقے کو بلاشبہ طلبا اور طلبا سیاست سے زیادہ نزدیکی اس لئے ہوتا ہیکہ اُنہیں پوری طرح علم ہوتا ہیکہ طلبا کسی بھی قسم کی organic انقلاب برپا کرنے کے صلاحیت رکھتے ہیں، اور وقت پڑھنے پر انٹکیچوئل طبقے کے پیغامات اور سوچ کو بہتر سمجھنے کیلئے اسٹوڈنٹس ہی پائیدار ہوتے ہیں۔
انٹلکیچوئل ایک ذہین انسان ہوا کرتا ہے جو وجوہات، تنقیدی و باریکی نقطۂ نگاہ سے منسوب خیالات کو استعمال کرکے انسانی معاشرے کی ارتقائی، معروضی، مفروضاتی، دانشورانہ سب قسم کے تحقیقاتی اصول کے حاصل شدہ عمل کو سماج، معاشرہ اور اُس میں آباد انسانوں کی شعوری اور علمی ترقی کیلئے استعمال کرکے اُن سے جوڑے صلاحتیوں کو اکسانے پر اپنا بیانیہ پیش کریگا۔ جس پر عمل کرنا پھر عوام کا کام ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے بلوچ پالیٹکس چاہے وہ طلبا سیاست سے علمی اور تحقیقی امیدوں پر مبنی دانشمندانہ انٹلکیچوئل تعلیمات کی ضرورت ہو یا قوم پرستی سے جوڑے دوسرے قسم کے سیاسی انقلابات، سب میں عوامی سطح پر انٹلکیچوئل کرائسس کا مسئلہ ماضی میں رہا ہے، حال میں ہے اور مستبقل میں بھی رہیگا۔
مگر اس کرائسس کو Indigenous Colonialism یا پھر Neo Liberal Policy
سے جوڑنا بالکل بھی عجیب تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ colonialism کبھی بھی indigenous ہو نہیں سکتا، colonialism ہمیشہ بیرونی، دشمن اور دوسرے ممالک ہی سے منسوب ہو سکتا ہے جو کسی ایک اور قوم کے زمین پر قابض ہوگا۔
indigenous colonialism
کا بلوچ کے زمین اور سیاست سے کوئی بھی تعلق ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نوآبادیاتی پالیسی کا تعبیر کچھ یوں دیکھا گیا ہے، جب ایک سیاسی طاقت کسی دوسری زبان، کلچر، زمین پر قابو پالیں، جیسا کہ Indigenous Colonialism کینیڈا کسی حد تک تجربہ کرچکا ہے، جہاں یورپین آبادکاروں نے جارحانہ انداز میں مقامی لوگوں کے زمینیں خریدیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بے گھر کردیا، بلوچستان میں قابض ریاستی آبادکاروں سے زیادہ افغان پناہ گزیں Demographic تبدیلی کے سبب بنیں ہیں وہ کوئٹہ اور اس کے مضافاتی پشتون علاقوں میں، مگر بلوچوں کے گنجان آبادی والے جگہوں سوائے گوادر کی کہیں بھی اس کا صداقت ملتا نہیں تو اس کو طلبا سیاست، قومی سیاست اور انٹکیچوئل کرائسس سے جوڑنا کوئی معنی نہیں رکھتا، ہاں البتہ اُن قوموں میں انٹلکیچوئل زیادہ پیدا ہونا چاہیئے جو ایک مسلسل قابض ریاست کے ماتحت غلام ہیں۔
نیو لبرل پالیسی یعنی Neo Liberalism، جو ایک مارکیٹ سے وابستہ پالیسی ہے، جسمیں آزاد مارکیٹنگ کے اصول، تجارت کے رکاوٹیں کم کرنا، ریاست کی طرف سے ملوث معاشیات اصولوں میں اثر کو گھٹانے جیسے رائے ہوتے ہوں جو یقیناً Capitalism کے زمرے میں آتا ہے، تو کسی حد تک یہ کہنا آسان ہوگا کہ اب تک بلوچ اس لیول پہنچ نہ سکا ہے جس سے نیو لبرل پالیسی اس کے انٹکیچوئل پیداوار کو بانجھ کرنے میں استعمال ہو سکیں۔ لہٰذا لکھتے اور کہتے وقت پہلے تفصیلی مطالعہ کا آغاز کرنا لازمی ہوتا ہے، یوں اصطلاحات کو استعمال کرکے بہت جلد سیاسی ہیروازم کے تباہ کن وائرس سے بچنے کی کوشش ایک سیاسی اور تنظیمی باسک اور لیڈر کو آنا چاہئے۔ پھر یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اتنا انٹکیچوئل اور دانشوروں نے اپنی جذباتی تقریروں سے نوجوانوں کو Stockholm Syndrome کا شکار نہیں بنایا، آپ اپنے ابہامی تحریروں سے ضرور بناوگے۔
دانشوروں کا اگر عملی میدان میں واقعی بحران یا کرائسس ہے، تو جو بھی لکھا جا رہا ہے اُسے کیسے جذباتی اور اشتعال انگیزی کا نام دیکر انٹکیچوئل طبقے سے منسوب کرایا جاتا ہے، پہلے تو دانشور جذباتی تقریریں لکھتے ہی نہیں۔ کوئی بھی دانشور سب پہلوؤں پر غور وفکر کے بعد لکھتا ہے، لاجواب لکھتا ہے اور واضح لکھتا ہے اگر کسی کے بھی لکھے گئے تحریروں میں ابہامی، تضاداتی، جذباتی رنگ اور تماشا موجود ہے تو وہ انٹلکیچوئل نہیں کہا جاسکتا۔
کوئی دانشور گالی گلوچ، صرف بورژا بیٹھک کے رجحانات، دفاعی مقام کا مستحکمی، کسی ایک اور فلسفہ کو برابھلا کہنا اور دوسرے کو لاجواب، قومی مفادات اور سیاست پر ابہامی رائے رکھنا، رحمانہ اور دوستانہ تنقید، سماج میں دوست اور دشمن جیسے hold رکھنے والے امتیازی رجحانات پر یقین رکھ ہی نہیں سکتا۔
انٹکیچوئل کا ایک نظریہ ہوتا ہے، جو کنسریٹو سے لیکر فاشسٹ، سوشلسٹ، لبرل، انقلابی، جمہوری، کمیونسٹ اور نیشنلسٹ بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں اپنے نظریئے بہت پیارے ہوتے ہیں مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک عملی اور شعوری انداز میں ابھرا دانشور کسی اور نظریہ کو برداشت نہیں کرتا۔
طلبا سیاست کو بلاشبہ انٹکیچوئل رائے اور مشوروں کی اشد ضرورت ہوتا ہے مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اسٹوڈنٹس پالیٹکس ہی انٹلکیچوئل پیدا کرسکتا ہے یا کریں۔ طلبا سیاست کا مرکوز صرف اکیڈمک ہوتا ہے جہاں طلبا کو آگاہی اور آشنائی کے دروازے تک آسانی پیدا کرسکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔