بلوچ ثقافت کا متنازعہ دن – ٹی بی پی اداریہ

442

بلوچ ثقافت کا متنازعہ دن

ٹی بی پی اداریہ

ہر سال 2 مارچ کو بلوچ ثقافت کا دن منایا جاتا ہے۔ لیکن یہ دن مختلف تنازعات کے زد میں آچکی ہے۔ اس دن کی شروعات 2010 میں پہلی بار اس وقت ہوئی، جب بلوچ آزادی پسند قوم پرستوں نے اعلان کیا کہ وہ 2 مارچ کے دن ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کریں گے تاکہ منفرد بلوچ ثقافت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر اور مضبوط کیا جاسکے۔ بادی النظر، بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد، ریاست پاکستان اور بلوچ قوم کے بیچ اس فرق کا اظہار تھا کہ بلوچ تاریخی طور پر ایک جداگانہ وجود رکھنے والی ایک قوم رہی ہے۔

تاہم، انہی آزادی پسند بلوچ قوم پرستوں نے تحفظ کے خدشات کے بنا پر اس دن کو منانا تب بند کردیا، جب پہلے ہی سال کے سرگرمیوں میں بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن آزاد کے کارکنوں کو بلوچستان یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی خضدار میں کلچر ڈے کے سرگرمیوں کے دوران دستی بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں بی ایس او آزاد کے دو کارکن سکندر بلوچ اور جنید بلوچ جانبحق ہوگئے اور مزید 18 طلباء و اساتذہ شدید زخمی ہوگئے۔

بلوچ طلبہ تنظیم اور دوسرے بلوچ آزادی پسند قوم پرست جماعتوں نے یہ الزام عائد کیا کہ ان حملوں کے پیچھے، پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی سرپرستی میں چلنے والی ملیشیاء ہے۔ کیونکہ سنہ 2000 میں جس بلوچ تحریک آزادی کا آغاز ہوا تھا، اس میں ایک شدید ابھار بھڑتا جارہا تھا، اور اس طرح کے ثقافتی سرگرمیوں کو قوم پرستی کے جذبات سے نتھی کیا جاچکا تھا، جو آزادی کے جذبات میں مزید اضافے کا باعث بن سکتے تھے۔ اسی لیئے پاکستانی فوج ایسے سرگرمیوں کو کچلنا چاہتا تھا۔

حالیہ دور میں، پاکستانی فوج کے پالیسیوں میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے کہ وہی آرمی جس پر الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر کلچر ڈے پر حملے کروا کر اسے کاؤنڑ کررہا ہے، بلوچ آزادی پسندوں کو روکنے کے بعد، اب وہی آرمی بخوشی بلوچستان بھر میں اسی 2 مارچ کے دن پروگراموں کا انعقاد کررہا ہے۔

کوئی بھی اب آسانی کے ساتھ فرنٹیئر کور اور آرمی کے اہلکاروں کو ثقافتی سرگرمیوں میں متحرک دیکھ سکتا ہے اور زیادہ تر یہ سرگرمیاں آرمی کے چھاونیوں اور ایف سی کے کیمپوں میں منعقد ہوتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق فوج نے ہمدردی کے بجائے ایک حکمت عملی کے تحت بلوچ ثقافتی دن کا کنٹرول حاصل کیا ہے، اور اسکے ذریعے وہ بلوچستان کے ابتر حالات سے توجہ ہٹا کر، ایک ایسی تصویر پیش کرنا چاہتا ہے کہ جہاں بلوچ خوش ہیں اور روایتی بلوچ اور فوج شانہ بشانہ ہیں۔

یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ فوج کے اس بدلتے پالیسی کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنا ایک منظورِ نظر ثقافت نافذ دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ بلوچ ثقافت، جس کا خاصہ مزاحمت رہی ہے، اب اسے حکمت عملی کے تحت غیر مسلح کرکے محض ایک فیشن شو میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

تاہم بلوچ سیاسی و سماجی و طلباء کارکن اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ فوج کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیئے کہ وہ بلوچ ثقافت کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرے، اور اس بات کیلئے جدوجہد ہونی چاہیئے کہ حقیقی بلوچ ثقافت کو روشناس کیا جائے جو مزاحمت، ہم آہنگی، لٹریچر اور محبت ہے۔