نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کے مطالبات تسلیم کیئے جائیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اسمبلی کے اندر موجود اراکین اسمبلی کے ہوتے ہوئے ہماری بچیوں کے ساتھ بد سلوکی کی گئی۔ اس کی مثال تو مارشل لا دور میں بھی نہیں ملتی ہماری قوم کے مستقبل کے معماروں کو اس طرح اسمبلی کے سامنے روڑ پہ گھسیٹا گیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ طاقت کے زور پہ اس طرح طلبہ اور ملازمین کو خاموش نہیں کیا جاسکتا، یونیورسٹی ایکٹ 2017 جلد بازی میں پاس کیا گیا جس کی وجہ سے طلبہ اور ملازمین متاثر ہو رہی ہی۔ں فیس میں اضافے کی وجہ سے طلبہ انتہائی مشکالات کا شکار ہیں۔ اس وقت 70 فیصد ملازمین 30 یا 35 سال کی سرکاری ملازمت مکمل کر کے ریٹائرمنٹ، پینشن اور مراعات کے لیے فکر مند ہیں۔ یونیورسٹی ملازمین کی سروس سٹرکچر بھی ابھی تک غیر واضح ہے۔ اوپن میرٹ کے نام پر بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے غریب طلبہ سے زیادتی نہیں ہونے دینگے۔
ڈاکٹر حئی نے کہا ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بلوچستان کے غریب طلبہ کے حقوق پہ خاموش نہیں بیٹھی گی۔ ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ میرٹ کی بنیاد پہ ہزاروں غریب طلبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے فارغ ہو کر یہاں کے مظلوم عوام کی خدمت کر رہی ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک حکومت کی اس ظالمانہ پالیسی کی پر زور مخالفت کرتی ہے جس سے یہاں کے عوام میں ایک گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کے نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل نکالے ورنہ دیگر صورت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی دیگر پارٹیز کے ساتھ مل کر سخت لائحہ عمل کرنے پہ مجبور ہوگی۔