بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا وجود دنیا کیلئے امید کی کرن کے طور پر سامنے آئی کہ اس سے تمام قوموں کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ تاریخ کے اس مرحلے میں نوآبادی طاقت جنگ عظیم دوئم کی وجہ سے اپنے اپنے مقبوضہ جات پر قبضہ قرار رکھنے کے پوزیشن میں نہیں تھے اور بہت سی نئی ریاستوں کا ظہور ہوا۔ ہندوستان سے برطانیہ کی انخلاء کے ساتھ ہی بلوچ وطن بھی آزاد ہوگیا۔ مگر جلد ہی ہماری آزادی پر نوزائیدہ پاکستان نے شب خون مارا اور ہمیں غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ دیا۔ یہ واقعہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے محض دو سال بعد رونما ہوا۔ پاکستان نے نہ صرف ہماری آزادی سلب کی بلکہ ہماری وسائل سے مالامال سرزمین کے ساحل و وسائل کی استحصال و لوٹ مار اور بلوچ قوم کی منظم نسل کشی کا آغاز کیا۔ اس کی رفتار کبھی سست اورکبھی بھیانک شکل اختیار کرتی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے ہاتھوں بلوچ قومی نسل کشی انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی اقوام متحدہ خاموش تماشائی کا کردا رادا کررہا ہے۔ بلوچ کی لہو اقوام متحدہ پر قرض ہے اور اس میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قیام کے بنیادی مقاصد میں اہم ترین مقصد ریاستوں اورقوموں کے درمیان مسائل کا دیرپا اور پائیدار حل تلاش کرنا ہے، لیکن پاکستان کے نام پر جو غیر فطری ریاست وجود میں لائی گئی وہ نہ کسی قوم کی تعریف پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی پاکستان کسی قوم کا نام ہے۔ یہی پاکستان اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے نہ صرف موجود ہے بلکہ بلوچستان پر قبضے کے علاوہ خطے میں دہشت گردی کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتاہے،اس کی کسی نہ کسی سطح پر تانے بانے پاکستان سے ضرور ملتے ہیں۔ پاکستان کسی ریاست کے بنیادی تقاضوں کو کسی بھی عنوان پر پورا نہیں کرتا۔ اس کی بنیادیں مذہبی بنیاد پرستی اور انسان دشمنی پر استوار کی گئی ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان گذشتہ ستر سالوں سے اپنے محکوم قوموں پر اور خطے میں تباہی مچار رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں مصلحت کا شکار ہوکر اس حقیقت سے چشم پوشی کا مرتکب نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل انتونیو گیوتریس کا متوقع دورہ پاکستان کے موقع پر ہم انہیں یاد دہانی کرنا چاہتے ہیں کہ ایک غلام قوم کی حیثیت سے ہم یہ قوی امید رکھتے ہیں کہ آپ بلوچستان میں جاری نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر پاکستان کے خلاف خصوصی نوٹس لے کر بلوچ قومی مسئلے کی حل کی جانب قدم اٹھائیں گے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دورہ پاکستان محض اسلام آباد کا موقف جاننے اور پاکستانی حکمرانوں کی جھوٹوں اور آئین میں لکھے چند قوانین کی ملاحظہ تک محدود رہا تو یہ نہ صرف بلوچ قوم کے ساتھ ایک تاریخی ناانصافی ہوگی بلکہ اقوام متحدہ کے اغراض و مقاصد کے منافی عمل تصور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل کا دورہ ایسی حالات میں ہو رہا ہے جب پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے بلوچستان میں واضح طور پر بلوچ نسل کشی کررہے ہیں۔ بلوچ سیاسی آوازوں کے لئے زمین تنگ کردی گئی ہے۔ بلوچستان کے کونے کونے میں چوکیاں لگا کر پاکستان روزانہ کی بنیاد کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ ہی کے ہیومین رائٹس کونسل کے ادارے Working Group on Enforced or Involuntary Disappearances میں ہزاروں بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کی تصدیق شدہ درخواستیں موجود ہیں۔ یہ وہ کیس ہیں جن کی خاندانوں نے رضامندی، شناخت اور اجازت نامہ کے ساتھ اس گروپ کی اصولوں اور ضوابط کو پوری کرکے اپنا کیس فائل کیا ہے۔ بصورت دیگر جبری گمشدگیوں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ ماضی میں اعلیٰ سرکاری عہدیدارحتیٰ کہ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ، بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی میڈیا کے سامنے بیس ہزار سے زائد افراد کی گرفتاری قبول کرچکے ہیں مگر کسی کی رہائی اور کسی عدالت میں پیش کرنے کی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ دوران حراست، ہدف بناکرقتل اور جعلی مقابلوں میں پانچ ہزار بلوچوں کو شہید کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ہزار کی تصدیق بی بی سی ورلڈ کی ایک رپورٹ میں کی گئی ہے جو 2012 سے 2017 تک کی رپورٹوں کے مطابق ہیں۔ اسی طرح گذشتہ دور حکومت میں خضدار سے تین اجتماعی قبروں سے ایک سو انہتر لاشیں برامد ہوئیں۔ ان میں سے صرف تین افراد کی شناخت ہوئی جنہیں پاکستانی فوج نے مختلف علاقوں سے اٹھا کر لاپتہ کیا تھا۔ باقی لاشوں کو نہ شناخت کیلئے رکھا گیا اور نہ ہی ڈی این اے کی سہولت سے استفادہ کیا گیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں تمام محکوم قوموں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ پشتون اور سندھی بھی نسل کشی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ بلوچوں کی طرح ہزاروں پشتون اور سینکڑوں سندھی قتل ہوچکے ہیں یا پاکستانی فوج کے زندانوں میں قید ہیں۔ بلوچستان میں دو دہائیوں پر محیط فوجی آپریشن آج بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں گھر اور دیہات جلائے گئے ہیں، مال مویشی اور زیورات سمیت کئی املاک کو لوٹا گیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ فورسز کے ہاتھوں لاپتہ قتل ہونے والے بلوچوں کا مستونگ میں ایک قبرستان آباد کی گئی ہے جسے نامعلوم افراد کا قبرستان کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔ لاشیں آج بھی گرائی جاتی ہیں لیکن آج تک ریاست پاکستان ان لاشوں کی ڈی این اے سے انکاری ہے، کیونکہ ایسے کرنے سے یہ ثابت ہوگا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں لوگوں کے سامنے پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے اٹھا کر ٹارچرسیلوں میں منتقل کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی مظالم میں اس وقت دوگنا اضافہ ہوا جب سی پیک کی شکل میں چین بلوچستان کی وسائل اور تزویراتی پوزیشن سے مستفید ہونے کے لئے پاکستان کے ساتھ شریک جرم بن گیا۔ ان دو قوتوں کی براہ راست مظالم کے ساتھ پاکستانی فوج اپنے جنونی مذہبی پراکسیوں کو بڑی تعداد میں بلوچستان منتقل کرچکی ہے تاکہ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے علاوہ بلوچستان کی سیکولر، مذہبی رواداری پر مبنی معاشرہ کو پراگندہ کیا جائے اورنسل کشی میں فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ ان پراکسیوں سے کام لیا جائے۔ یہ کام شدت کے ساتھ جاری ہے۔ داعش سمیت کئی شدت پسند تنظیموں کے باقاعدہ تربیتی اور لانچنگ پیڈ موجود ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ سی پیک بلوچوں کی اقتصادی استحصال کا منصوبہ بن گیا ہے۔ اس کی آڑ میں بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ اس کی ایک اور واضح ثبوت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ ایک بیان ہے، جس میں وہ برملا کہتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل فروخت کرکے پاکستان کے قرضے اتارے جائیں گے۔ پاکستان گزشتہ ستر سالوں سے بلوچستان کے وسائل کوڑی کے داموں فروخت کررہاہے۔ سیندک، ریکوڈک اور گوادر نام نہاد میگا پروجیکٹس کے نام پربلوچ قوم کی منشاکے بغیر چین کو لیز پر دی گئی ہیں۔ سی پیک نامی بلوچ کش منصوبے کی شرائط اتنے خطرناک ہیں کہ پاکستان اپنی پارلیمنٹ میں انہیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ یہ نام نہاد ترقیاتی منصوبے بلوچ وسائل کی استحصال کے علاوہ ماحول کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ ان منصوبوں میں کسی طرح کا حفاظتی نظام موجود نہیں۔ مثال کے طور ماحولیاتی آلودگی، جو دنیا میں ایک سلگتا ہوامسئلہ ہے، ان منصوبوں میں ان کی تدارک کیلئے کوئی پالیسی نہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے علاوہ ان منصوبوں میں حفاظتی نظام نہ ہونے کے وجہ سے امیر بلوچستان کے باشندے نہ صرف خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں بلکہ مختلف بیماریوں سمیت کینسر عفریت بن کر انہیں ہڑپ رہا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ بلوچستان میں کینسر کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غیر محفوظ ایٹمی دھماکے اور میگا منصوبے ہیں۔
بی این ایم کے چیئرمین نے کہا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت چین اور پاکستان سے لاکھوں لوگوں کو گوادر میں آباد کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس سے بلوچوں کی ڈیموگرافک تبدیلی یقینی ہو چکی ہے۔ بلوچ قوم اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں سی پیک منصوبوں کی اطراف میں موجود آبادیوں کو زبردستی بے گھر کیا جاچکا ہے۔ پاکستانی فورسز نے بلوچستان کو نوگو ایریا میں تبدیل کردیا ہے۔ غیرجانبدار اور بین الاقوامی میڈیا سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی کارکنوں پر پچھلے بیس سالوں سے بلوچستان میں داخلے پر پابندی ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کی کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پاکستان کے دورے پر بلوچستان میں جبری طور لاپتہ، ماروائے عدالت قتل، بلوچ قومی وسائل کی استحصال، ماحولیاتی تباہی جیسے مسائل کا خصوصی نوٹس لے کر بلوچستان کے قومی مسئلے کی حل کی جانب پہلا قدم اٹھائیں۔