ٹی بی پی نمائندے کو ملنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج بروز پیرکوئٹہ کے علاقے سریاب سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے ممتاز قوم پرست رہنما اور بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ فضیلہ، گود لی ہوئی چار سالہ بچی پوپل جان کو تین خواتین سمیت اغوا کیا ہے۔
دوسرے مغویوں میں بی بی سلمیٰ بنت رحیم داد اور اسکا ڈیڑھ سالہ بچہ عرفان، ایال بنت امین اور اس کی دو سالہ بیٹی زہیرگ، اورگوَر جان بنت غلام قادر شامل ہیں۔ فضیلہ بی بی جو مشکے میں ڈاکٹر اللہ نذر کے گاؤں پر بمباری میں زخمی ہوئی تھیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ ان کی ایک دفعہ ریڈھ کی ہڈی میں آپریشن کے بعد صحت یاب نہ ہونے کی وجہ سے ایک دفعہ پھر علاج کی غرض سے کوئٹہ آئی تھیں اور یہ خواتین ان کی تیمار داری کیلئے ساتھ تھیں کہ خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے انھیں اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے۔
دوسری جانب بلوچ نیشنل مومنٹ نے بھی اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر اللہ نزر کی بیوی سمیت باقی تینوں خواتین کو آئی ایس آئی نے اغوا کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کیا ہے جہاں ان کی زندگیوں کو انتہائی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بی این ایم کے ترجمان نے ڈاکٹر کی اہلیہ کے متعلق مزید تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ریڈھ کی ہڈی کے علاوہ ان بمباریوں کے بعد وہ نفسیاتی مریض بن چکی تھیں جنہیں ڈاکٹروں نے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص کی تھی۔
بی این ایم ترجمان نے کہا کہ پاکستان تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہاہے۔ بلوچستان میں جاری پانچویں فوجی آپریشن میں ہزاروں بلوچوں کو اغوا اور شہید کرکے پاکستان نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہاہے۔ اس صدی کی ابتداء میں شروع ہونی والی آپریشن میں پاکستان نے لوگوں کو اُٹھا کر غائب کرنا شروع کیا۔دنیا کی خاموشی اور انسانی حقوق کی اداروں کی پاکستان کے خلاف عملی اقدامات نہ اُٹھانے کی وجہ سے 2009 سے ان لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوگئیں۔جسے ’’مارو اور پھینکو‘‘ پالیسی کانام دیا جاتا ہے۔ اب اس میں ایک اور فیز کا اضافہ کرکے خواتین اور بچوں کو اُٹھانے میں تیزی لائی گئی ہے۔ کراچی سے نو کمسن بچوں اور طلباکا اغوا اور آج کوئٹہ سے ڈاکٹر اللہ نذر کی بیوی فضیلہ اور دوسرے خواتین کا اغوا اور گمشدگی اسی تسلسل کا حصہ ہیں جو پاکستان نے نئی حکمت عملی کے طور پر اپنائی ہیں۔