گوادر ماسٹر پلان + چند خفیہ گوشے – انور ساجدی

1002

گوادر ماسٹر پلان + چند خفیہ گوشے

تحریر: انور ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

افتادگان خاک ہمیشہ منتظر رہتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی اچھی خبر آئے لیکن نہیں آتی۔

اخبار دی نیوز نے ایک پرانی خبر کو جوکہ گوادر کے ماسٹر پلان کے بارے میں ہے نئے انداز میں شائع کی جس کی تفصیلات صرف ہوش ربا باقی لوگوں کے لیے خیر کی نوید اہل بلوچستان کے لیے صرف تشویش ہی تشویش کے پہلو دکھائی دیتے ہیں۔

گوکہ ماسٹر پلان کا اعلان چند ہفتہ پہلے کیا گیا تھا لیکن اس کی اصل حقیقت چھپائی گئی تھی نئی تفصیلات میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں گوادر شہر کی آبادی 20لاکھ نفوس پر مشتمل ہوگی اور یہ کوئی عام لوگ نہیں ہونگے بلکہ مختلف شعبوں کے ماہرین اور بڑے درجہ کے سرمایہ کار اور ساہوکار ہونگے یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ پاکستان کی جی ڈی پی 15سوڈالر کے مقابلے میں گوادر کی جی ڈی پی 15000ہزار ڈالر یعنی سوگنا زیادہ ہوگی لیکن مدت کا تعین نہیں کیا گیا اور نہیں بتایا گیا کہ گوادر کی آبادی کب تک 20لاکھ ہوجائے گی۔

نوید سنائی گئی ہے کہ جو لوگ یہاں قیام پذیر ہونگے وہ بھاری مشاہرات کے حامل ہونگے شہر یا علاقہ میں ٹیکس فری ماحول ہوگا ہائی ٹیک انڈسٹریز کام کریں گی، بڑے بڑے میگا شاپنگ مال ایستادہ نظر آئیں گے، لگژری تفریحی مقامات اور مصنوعی جزائر پاکستان کا سب سے بڑا ایئرپورٹ اور بے شمار جدید سہولتیں اس شہر کا طرہ امتیاز ہونگی اگرچہ گوادر سیف سٹی جدید ترین شہر ہوگا لیکن آبادی کے اعتبار سے یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر ہوگا گوادر کب تک تیسرا بڑا شہر ہوگا یہ بھی نہیں بتایا گیا البتہ یہ ضرور بتایا گیا کہ پیداوار اور آمدنی کے اعتبار سے اس کی حیثیت نمبر 3 ہوگی۔

ماسٹر پلان 75 صفحات پر مشتمل ہے جو چین کی سرکاری کمپنی چائنا کنسٹرکشن نے پاکستان کی منصوبہ بندی کی وزارت اور جی ڈی اے کے اشتراک سے بنایا ہے۔ ماسٹر پلان میں وہ پورا روڈ میپ درج ہے جس کے تحت گوادر جنوبی ایشیاء کا تجارتی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنے گا اور جس کی جی ڈی پی 15 ہزار ڈالر تک جا پہنچے گی اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کب تک لیکن پیشنگوئی کی گئی ہے کہ گوادر کی سالانہ آمدنی 30ارب ڈالر تک پہنچے گی یہ تو پرانی بات ہے کہ کس طرح گوادر کو جنوبی ایشیاء اور خلیج میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی اور یہ چائنا کو خلیج کے ساتھ ملانے کا ذریعہ ہوگا۔

سرمایہ کاری کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 5 ارب ڈالر کی لاگت سے توانائی کے منصوبے مکمل کیئے جائیں گے جن میں بجلی پیدا کرنے کے 15 پاور پلانٹ شامل ہیں پانی کے مسئلہ کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ ایک ارب ڈالر کی لاگت سے سمندری پانی صاف کرنے کے دیوہیکل پلانٹ لگائے جائیں گے جو روزانہ 5 ارب گیلن پانی فراہم کریں گے۔

دیگر تفصیلات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے حامل انتہائی ہنر مند لوگوں کی بڑی تعداد گوادر کا رخ کرے گی۔

یہ جو تفصیلات ہیں یہ ایک سہانے سپنے کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ گوادر جاکر دیکھا جائے تو زمینی حقیقت مختلف نظر آئیگی۔ اس وقت گوادر شہر چند عمارتوں اور ایک دو ایکسپریس وے کے علاوہ ایک کچی آبادی والے شہر کا منظر پیش کرتا ہے اگر اسے واقعی میں جنوبی ایشیاء اور خلیج کا کمرشل حب بنانا مقصور ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ موجودہ شہر کو خالی کروادیا جائے اور اس کے مکینوں کو کہیں اور منتقل کردیا جائے ماسٹر پلان کا یہ حصہ خفیہ رکھا گیا ہے تاکہ فوری ردعمل سامنے نہ آئے جس طرح کہ کہا گیا ہے کہ یہاں پر بڑی بڑی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہونگی تو سوال یہ ہے کہ وہ شہر کے کس حصے میں بنیں گی جہاں پورٹ ہے اس کے اطراف میں کافی جگہ اس کے ضروری لوازمات کے لیے درکار ہے پورٹ کی اپنی بلڈنگز بھی ہونگی جو علاقہ فری زون کے لیے اب مختص کیا گیا ہے اگر ایک میگاسٹی تعمیر کرنا مقصود ہے تو وہ مناسب جگہ نہیں ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ ایکسپورٹ کمپنیوں کے دفاتر کہاں ہونگے؟ کنٹینر یارڈ کے لیے کتنی جگہ درکار ہوگا سیف سٹی کے جو سیکیورٹی زون ہونگے وہ کہاں پر ہونگے یہ بات طے ہے کہ سنگہار اور نیوٹاؤن نہیں ہونگے اور اولڈ سٹی بھی نہیں ہوگا۔

سیف سٹی جدید مغربی اصطلاح ہے جس کا مقصد ایسا شہر جو محفوظ ہوں اور اس میں غیر متعلقہ لوگوں کا آنا جانا ممنوع ہو یعنی ٹھوس جواز کے بغیر غیر متعلقہ لوگ شہر میں داخل ہونے کے مجاز نہیں ہونگے۔

ایک اور سربستہ راز یہ ہے کہ یہ شہر کون تعمیر کرے گا، چائنا یا پاکسان! امکانی طور پر یہی لگتا ہے کہ یہ شہر چین تعمیر کرے گا کیونکہ پاکستان کے پاس ضروری مہارت نہیں ہے جبکہ چین اس وقت جو نئے شہر آباد کرچکا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں سائبر سٹی شین جن چنگڈ وارمچی اور ووہان ایسے شہر ہیں جو گذشتہ 30 برسوں میں تعمیر کیئے گئے ہے لہٰذا یہ ذمہ داری تو چین اٹھائیگا لیکن ایک اور خفیہ پہلو یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان زمین کے حق مالکانہ کے بارے میں کیا معاہدے ہوئے ہیں اور جس کے تحت چین کو کیا حقوق دیئے گئے ہیں یہ بات بھی پوشیدہ ہے جہاں جہاں چین تعمیراتی کام کرے گا اس کا محل وقوع کیا ہے یعنی کتنا علاقہ اس کے حوالے کیا جائے گا مجھے یقین ہے کہ اس ضمن میں جو معاہدے ہوئے ہیں اس سے حکومت بلوچستان بھی واقف نہیں ہے، دستخط تو وفاقی حکومت کے نمائندوں نے کیئے ہیں لیکن حقیقت حال سے صرف سیکیورٹی ادارے ہی واقف ہیں اس سے یاد آیا کہ طویل المدتی سیکورٹی معاہدہ بھی ضرور ہوا ہوگا تاکہ چین اپنے باشندوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری خود اٹھائے معلوم نہیں کہ گوادر کے سامنے پانیوں میں چین کے سیکورٹی جہازوں کو بھی لنگر انداز ہونے کی اجازت دی گئی ہے کہ نہیں، ماضی میں امریکہ کئی بار اس خدشے کا اظہار کرچکا ہے کہ چین خلیج میں سیکورٹی کے نام پر اپنے دستے رکھے گا اسی بات سے امریکہ کے تحفظات ہیں اگر چین نے کوئی مستقل بحری مستقر بنایا تو گوادر کے عین سامنے مسقط میں امریکی اڈہ موجود ہے جس سے عالمی رسہ کشی اور تناؤ میں اضافہ ہوگا۔

زیادہ دور نہ جائیے جنوی سے کچھ فاصلے پر چاہ بہار پورٹ واقع ہے جو ہندوستان تعمیر کررہا ہے یعنی ہندوستان بھی ہیاں موجود رہے گا کسی کو معلوم نہیں کہ ڈام سے لیکر جیونی تک کیا کیا منصوبے زیر غور ہیں یہ بات طے ہے کہ تجارتی اور معاشی سرگرمیاں پسنی سے شروع ہونگی اور جیونی میں اختتام پذیر ہونگی بیچ والا علاقہ دیگر مصرف میں لایا جائیگا اور پوری ساحلی پٹی بے حد حساس علاقہ قرار دیا جائیگا اور یہ بات جاننا ضروری ہے کہ گوادر میں چین کو ایسے حقوق تو نہیں دیئے گئے جو چین نے برطانیہ کو ہانگ کانگ میں دیئے تھے جب برطانیہ نے ہانگ کانگ پر قبضہ کیا تھا تو اس کی حیثیت ایک آزاد اکانومک زون یا محدود ریاست کی تھی جن باتوں سے خدشہ ہے ان میں سے ایک نیشنل کوسٹل اتھارٹی ہے یہ ایک وفاقی ادارہ ہوگا جو گوادر کی تعمیر تک اس کے انتظام و انصرام کی دیکھ بھال اور نگرانی کرے گا کہیں ایسا تو نہیں کہ مستقبل میں گوادر کو وفاقی علاقہ قرار دیا جائے کیونکہ لسبیلہ، آواران اور گوادر پر مشتمل ساحلی ڈویژن کی تجویز پیش کی جاچکی ہے اگر حالات موافق ہوئے تو اس ڈویژن کو اسپیشل زون کا اسٹیٹس دیا جاسکتا ہے جو بالآخر وفاق کا زیر انتظام علاقہ کہلائے گا سوچنے کی بات ہے کہ اگر آئندہ پانچ سال کے دوران گوادر میں پانچ لاکھ غیر مقامی لوگ آگئے تو مقامی لوگوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی اور جیسا کہ پلان ہے میگاسٹی بننے تک اسکی آبادی 20لاکھ یا اس سے زیادہ ہوجائے گی تو اس کے اثرات کیا مرتب ہونگے سردست بی این پی مینگل کا ایک مطالبہ ہے کہ گوادر کی مقامی آبادی کو اقلیت میں جانے سے بچانے کے لیے قانون سازی کی جائے لیکن سب کو معلوم ہے کہ کوئی قانون سازی نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کے آئین میں ملک کے باشندوں کے آزادانہ نقل و حمل رہائش اختیار کرنے اور کاروبار کرنے کی ضمانت دی گئی ہے یہ کوئی یو اے ای نہیں ہے کہ یہاں پر غیر ملکیوں کے ووٹ یا شہری حقوق پر قدغن لگائی جائے کراچی کی مثال سامنے ہے 1947ء میں اس شہر کی نصف آبادی بلوچوں پر مشتمل تھی آج یہ اقلیت میں ہیں اور سندھ اسمبلی میں انکی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اگر گوادر میں لاکھوں لوگ باہر سے آگئے تو وہی صورتحال پیدا ہوجائے گی جو کراچی میں پیدا ہوئی تھی جب ایم کیو ایم نے سندھی اکثریت کو چیلنج کیا تھا اور یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ کسی سندھی کو کراچی میں واقع اسمبلی میں آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بلوچستان اسمبلی کے اراکین ایک پراسرار خاموشی کے شکار ہیں بیشتر اراکین کا پہلا مسئلہ ترقیات فنڈز کا حصول ہے اور یہ لوگ فنڈز فنڈز اور اسکیم اسکیم کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اس کے سوا انہیں اور کسی چیز کا ہوش نہیں ہے یا شائد ان کا بھی قصور نہیں ہے کیونکہ بلوچستان کو حقیقی معنوں میں ایک صوبے کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ کاغذوں پر بے شک یہ ایک اکائی ہے۔ اسمبلی بھی ہے وزیراعلیٰ اور اراکین اسمبلی بھی ہیں لیکن عملاً اس کا کنٹرول مقامی طور پر کسی کو حاصل نہیں ہے اس کی زیادہ سے زیادہ حیثیت انگریز دور کے چیف کمشنر صوبہ جیسی ہے یہی وجہ ہے کہ طویل مطالبہ کے باوجود گوادر کے بارے میں کوئی ٹھوس قانون سازی نہیں کی گئی ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس صوبے میں بیوروکریسی از خود معاملات چلاتی ہے گذشتہ ادوار میں وزراء اور اراکین اسمبلی اپنی مرضی کے افسران کو پوسٹنگ کرواتے تھے لیکن یہ زمانہ ختم ہوچکا افسران اوپر کے کنٹرول میں ہیں اور عوامی نمائندوں کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں ایک سابق چیف سیکریٹری بابر یعقوب 2013ء کے عام انتخابات کے بعد برملا کہا تھا کہ کونسے عوامی نمائندے؟ انہیں معلوم ہے کہ وہ کس طرح کامیاب ہوئے ہیں لہٰذا ایک کمزوری یہ بھی ہے اس کے علاوہ بے شمار دیگر کمزوریاں بھی ہیں عجیب بات یہ ہے کہ سخت کنٹرول کے باوجود کرپشن جاری و ساری ہے فنڈز کا ضیاع ایک اور بڑا مسئلہ ہے گذشتہ دودہائیوں سے صوبائی حکومت ایک بھی بڑا منصوبہ نہیں بناسکی جبکہ انفراسٹرکچر کا جو حال ہے وہ سب جانتے ہیں اس صورتحال میں گوادر میں مقامی لوگوں کے حقوق اور زندہ رہنے کے حق کا دفاع کیسے کیا جاسکتا ہے جس طرح باقی ملک میں اپوزیشن غیر فعال ہے بلوچستان میں تو اس کا اور براحال ہے اپوزیشن اراکین بھی فنڈز کی بندش کا رونا روتے ہیں جبکہ جام صاحب انہیں مزید رلاتے ہیں نہ جانے فنڈز کے لیے رونے دھونے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔