بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کہا ہے کہ دو ہزار بیس کا آغاز ریاستی بربریت سے ہوا، جنوری کے مہینے میں بلوچستان کے طول و عرض میں پاکستانی فوج نے30 سے زائدآپریشن کئے جن میں 67لوگوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیاگیا۔ آپریشنوں کے دوران50 سے زائدگھروں میں لوٹ مار مچائی گئی اور تیس گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ اس مہینے31لوگ قتل ہوئے،جن میں 23 افراد کے قتل کے محرکات سامنے نہ آ سکے،8بلوچ فورسز ہاتھوں شہید ہوئے۔
14جنوری سے لاپتہ عیسیٰ ولد شاہ زمان بگٹی کو فوج نے سے جعلی مقابلے میں، ایک شخص کو لیویز فورس نے جعلی مقابلے میں،ایک شخص کو جھاؤ کے علاقے سوڑ میں ڈیتھ سکواڈ نے قتل کردیا۔ پانچ بلوچ فرزند سرزمین کی آزادی جنگ میں شہید ہوئے۔
اسی ماہ مختلف فوجی ٹارچر سیلوں سے 43 افراد بازیاب ہوئے جس میں 2013 سے فورسز ہاتھوں لاپتہ دو افراد، 2014 کے دو افراد، 2015 سے لاپتہ ایک شخص،2016 کے چھ افراد،2017 کے دس افراد،2018 کے12 افراد اور2019 سے فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے دس افراد شامل ہیں۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ گزشتہ دو عشروں میں بلوچستان میں پیہم جاری مظالم میں ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے بلوچ قومی نسل کشی کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی علاقہ ایسا باقی نہیں رہا کہ جس پر آتش و آہن نہ برسی ہو، لوگ اٹھائے نہ گئے ہوں، گھر نذر آتش نہیں کئے گئے ہوں۔ در حقیقت بلوچستان میں کوئی علاقہ اس آگ سے محفوظ نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر فوج او ر خفیہ ادارے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر رہے ہیں۔ گھر بار، مال مویشی لوٹے جا رہے ہیں۔ ریاستی افواج، خفیہ ادارے اور فوج کے متوازی دہشت گرد ڈیتھ سکواڈ بلوچ قوم کے لئے اپنی ہی سرزمین پر زندگی کو دوزخ بناچکے ہیں۔ لوگوں کی نظروں کے سامنے ان کے جوان بچے اٹھائے جاتے ہیں اورلوگ بے بسی کا عملی نمونہ بن کر سالوں سے احتجاجی جلسوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں اپنے پیاروں کی آس لئے نظر آتے ہیں۔ لیکن شاذہی کسی کے آنکھ کا تارا بازیاب ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ پاکستانی بربریت سے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ متاثرہ خاندان ناقابل بیان صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ صورت حال روز بروز گھمبیر ہو رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند مہینوں سے ایک پیش رفت یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک پارلیمانی پارٹی لوگوں کی مجبوریوں کو سیڑھی بناکر سیاسی فوائد سمیٹنے کے لئے پاکستانی فوج کے ساتھ براہ راست سودا بازی میں مصروف ہے گوکہ فوج و خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیاں بلوچستان کے غلامی سے جڑے ہیں لیکن پاکستانی ریاست تمام انسانی و عالمی اقدار اور قوانین سے عاری اور اپنے ہی آئین کا باغی ہے۔ اس لئے بلوچستان میں گزشتہ دو عشروں سے ہزاروں لوگوں کو غیر قانونی اور غیراعلانیہ فوجی ٹارسیلوں میں قید کرچکی ہے۔ لیکن یہ ریاست ان ہزاروں لوگوں میں کسی ایک کو اپنے ہی عدالتوں میں پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس عمل نے بلوچ قوم کے ایک بڑے حصے کو موت و زیست کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے۔ مگر وہ اس بات سے واقف ہیں کہ ان کے بچے ایک عظیم مقصدکے لئے پاکستان کے زندانوں میں بند اذیت سہہ رہے ہیں۔ ایسا بہت کم دیکھنے آیا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے ریاست کے سامنے ماتھا ٹیک کر اپنے پیاروں کی بازیابی قومی مقصد کے قیمت پر مانگی ہے مگر افسوس ایک پارلیمانی پارٹی اس انسانی مسئلے کو اپنے سیاسی گیم کے لئے انتہائی ڈھٹائی سے استعمال کر رہا ہے۔ یہ پہلے سے معلوم تھا کہ دوچار سیٹیں فوجی مقاصد کی تکمیل میں معاونت کے لئے ملی ہیں اور خفیہ معاونت تو اپنی جگہ بلکہ وہ آرمی ایکٹ کی منظوری میں کھل کر سامنے آئے اور اس کے بدلے میں چند افراد کی رہائی عمل میں آئی۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ ہم تاریخی مرحلے سے گزر رہے ہیں جہاں تاریخ ایک طرف دشمن کے مظالم یاد رکھے گی وہاں نام نہاد قوم پرستوں کی چیر دستیاں بھی ناقابل فراموش ٹھہریں گی۔ لاپتہ افراد کے انسانی مسئلے اور لواحقین کے جذبات کو دشمن کے سازباز اور سیاسی سودابازی کے لئے استعمال کرنا بھی پاکستان کے جنگی جرائم میں شرکت کے برابر ہے۔ ایک طرف چند افراد لاپتہ افراد کو فوجی ٹارچر سیلوں سے نکال کر اس پارٹی کے حوالے کئے جارہے ہیں اور یہ پارٹی انہیں لاپتہ فراد کی بازیابی قرار دے کر پاکستان کے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے،لیکن اس سے کہیں زیادہ افراد لاپتہ کئے جا رہے ہیں بلکہ لاپتہ افرادکی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد فوجی ٹارچرسیلوں میں قید چند افراد رہا کرکے جس پارٹی کے علاقائی اور مرکزی نمائندوں کے حوالے کیا جارہاہے تو ریاست کے ساتھ یہ بھی اس بات پر جوابدہ ہیں کہ یہ لوگ اتنے سالوں سے کہاں اور کس جرم میں قید تھے،انہیں کس کس قیامت سے گزاراگیا ہے؟انہیں دیگر ہزاروں اسیروں کے بارے میں ضرورمعلومات ہوں گے اور یہ کہ ان افراد کے بارے میں وہ ریاست کے ساتھ کیسی معاہدہ کرچکے ہیں یا کرنے والے ہیں،آج نہیں تو کل بلوچ قوم اور تاریخ ان سے یہ سوال ضرور پوچھے گا۔
انہوں نے کہا لوگوں کو لاپتہ رکھنا سنگین جرم ہے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون حتیٰ کہ پاکستان کی اپنی آئین بھی کسی شخص کو لاپتہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ غیر انسانی عمل اپنی عروج پر ہے۔ یہ واضح جنگی جرم ہے۔ اس جرم پر پاکستان کو کٹہرے میں لانا چاہئے تھا لیکن لوگوں کی جذبات، مجبوریوں اورانسانی المیے کی قیمت پر پاکستان کو اس جرم سے بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاریخ جہاں پاکستان کا احتساب کرے گی وہاں ایسے کردار بھی تاریخ کی گرفت نہیں بچ پائیں گے۔
جنوری کے مہینے میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی سگین خلاف ورزی اورپاکستانی بربریت کی تفصیلات درجہ ذیل ہیں۔
1جنوری
۔۔۔کوئٹہ کے علاقے کچلاک سے نور احمد ولد عبد الحمید نامی نوجوان کی لاش بر آمد ہوئی جسے قتل کرنے کے بعد لاش ویرانی پھینک دیا گیا۔وجوہات معلوم نہ ہوسکیں۔
۔۔۔ تفتان سے ستائیس سالہ نوجوان وحید محمد حسنی کی لاش کنویں سے بر آمد ہوئی۔جسے پانچ روز قبل نامعلوم افراد اغواء کرگئے تھے۔
2جنوری
۔۔۔چار روز قبل نوشکی کے رہائشی جاوید کو نامعلوم افراد سندھ سے اٹھا کر لئے گئے جسکی تصدیق اہلخانہ نے آج کی۔
4جنوری
پاکستانی فوج نے کیچ کے علاقے دشت میں آپریشن کرکے محمد جان ولد ساکم اور عاشق ولد محمد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
5جنوری
۔۔۔ کیچ کے علاقے دشت سے پاکستانی فوج نے27دسمبر 2019کو شاکر ولد رفیق سکنہ کراچی اور ملارحمت ولد حاجی مجید کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے،شاکر اپنے رشتہ داروں سے ملنے آیا ہوا تھا، جسے حراست میں لیا گیا جس کی تصدیق آج اہلخانہ نے کی ہے۔ 6جنوری
۔۔۔ کولواہ کے مختلف گاؤں اور پہاڑی سلسلے میں پاکستانی فوج نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا ہے،کولواہ کے بیشتر علاقے فوجی محاصرے میں ہیں، آمدورفت کے راستوں پر سخت ناکہ بندی اور چیکنگ جاری ہے،پوری آبادی محصورہے۔
کولواہ کے علاقے ریک چائی، کنیچی، مکی اور تنزلہ اوران سے متصل پہاڑی سلسلوں میں پاکستانی فورسز کی جانب سے آپریشن شدت کے ساتھ جاری اور فورسز کی بڑی تعداد علاقے میں موجود ہے۔
۔۔۔ کوئٹہ سے دو افراد کی لاشیں بر آمد ہوئی جن کی شناخت محمد اعظم ولد انور اور عبدالخالق کے نام سے ہوئی ہے قتل محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
۔۔ پنجگو ر مسلح افراد کی فائرنگ سے ریاض ولد غلام قادر سکنہ زنڈیں ہلاک ہوئے۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے دشت بل نگورر میں پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے خواتین اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بناکر ابراہیم ولد براہم کو حراست میں لے کرنامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔ دوران آپریشن پاکستانی فوج گلشن نامی خاتون کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کی بازو ٹوٹ ہوئی ہے۔
8جنوری
گوادر سے پاکستانی فوج نے نوجوان طالب علم اورسیاسی کارکن محمد حنیف ولد فیض محمد کو لائبریری سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
۔۔۔ بسیمہ میں مسلح افراد کی فائرنگ سے خاتون ہلاک دو افراد زخمی ہوگئے
۔۔۔ چاغی سے معروف کاروباری شخصیت مجید نوتیزئی کو مسلح افراد نے اغواء کرکے نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
۔۔۔ آواران ایک سال قبل حراست بعد آئی ایس آئی کے ہاتھوں لاپتہ پشاور یونیورسٹی کا طالب علم سرفراز بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔ ڈیرہ مراد جمالی سے بیلداد ولد رحمت نامی شخص کی لاش بر آمد ہوئی،ہلاکت کی وجوہات معلوم نہ ہوسکی۔
10جنوری
۔۔۔نوشکی میں مسلح افراد کی فائرنگ عبدالغنی اور اس کا جوانسال بیٹابدل خان ہلاک ہوگئے۔
11جنوری
۔۔۔پنجگور سے نوجوان ضمیر ولد ماسٹرنذیر کی لاش بر آمد ہوئی ہے جسے کچھ رو ز قبل نامعلوم افراد اغواء کر گئے تھے۔
۔۔۔ خضدار سے عیسی خان ولد جمعہ نامی شخص کی لاش بر آمد ہوئی۔ہلاکت کی وجوہات معلوم نہ ہوسکیں۔
12جنوری
۔۔۔فوج کے حمایت یافتہ گرو نے نیو کاہان مری کیمپ پر قبضہ کر کے رہائشیوں کو بیدخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
13جنوری
۔۔۔ ہرنائی سے آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے سات افراد شریف ولد خیر محمد مری،وزیر ولد وہاب مری،پرویز ولد شکر خان مری،،مراد خان ولد دولت مری، طوطی ولد بندو مری،عالم بیگ ولد میرا مری اور ضعیف ولد العمر جنگو کو حراست میں لے کرنامعلوم مقام منتقل کردیا۔
۔۔۔آواران فوج کے ہاتھوں 21دسمبر 2019کو لاپتہ ہونے والے قدیر ولد برکت بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔بی ایس او آزاد کے سابق زونل صدر سمّی بلوچ حادثے میں وفات پاگئے،وہ بی اس او کے نہایت متحرک اور محنتی کارکن تھے،پارٹی سمی بلوچ کو ان کی جدوجہدپر خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
14جنوری
۔۔۔آواران سے پاکستانی فوج سعید ولد اللہ داد سکنہ تیرتیج کو حراست میں لے کرنامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔چار لاپتہ افراد بازیاب ہوگئے، 24 دسمبر 2017 کو مستونگ سے لاپتہ ہونے والا چاکر خان بنگلزئی ولد عبدالستار، 10 اگست 2014 کو خاران سے لاپتہ ہونے والا عارف بلوچ، 18 اپریل 2019 کو کراچی سے لاپتہ ہونے والا بہار بلوچ ولد ایوب اور 26اگست 2016 سے لاپتہ ہونے والا صلاح الدین سکنہ کلی جمال آباد نوشکی اور خضدار سے دوسال قبل لاپتہ ہونے والا سجاد احمد ولد منظور احمد شامل ہیں۔یہ افرادمستونگ،خاران،کراچی،خضدار اور نوشکی سے پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں سے پانچ افراد بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں مچھ، مستونگ اور بلیدہ سے جبری طور لاپتہ چار افراد بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے جنہیں مختلف اوقات میں جبری طور لاپتہ کیا گیا تھا۔
بازیاب ہونے والوں میں مچھ اللہ آباد کے رہائشی خدا بخش کلوئی رند ولد کریم بخش اور مستونگ سے تین سال قبل جبری طور لاپتہ ہونے والے پیر بخش ولد محمد اسلم بنگلزئی سکنہ پڑنگ آباد اور بلیدہ کوشک سے تین سال سے لاپتہ بابل غفور ولد عبدالغفور اور بلیدہ سلو سے دس مہینے قبل جبری طور پر لاپتہ احسان ولد رحیم بخش شامل ہیں۔
۔۔۔نوشکی 28 دسمبر 2019 کو سندھ کے علاقے خانپور سے لاپتہ جاوید بادینی سکنہ نوشکی بلوچستان بازیاب ہو گیا ہے۔
15جنوری
۔۔۔تین لاپتہ افراد بازیاب: نصیر آباد سے ایک سال قبل فوج کے ہاتھوں لاپتہ ناڑی خان بگٹی اور ماشکیل سے سردار حوبیار یار محمد زئی کا بیٹا،اور پانچ سال قبل نوشکی کے علاقے پاچنان سے عزیز احمد ولد شفیع محمد سمالانی سکنہ گوربرات نوشکی بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔
۔۔۔بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے طالب علم اور بی ایس اے سی کے ممبر جمیل ولد حاجی آدم گذشتہ رات بازیاب ہوگئے جنہیں گذشتہ سال 30 مئی کو قلات سے پاکستانی نے اس وقت حراست میں
۔۔۔ کیچ کے علاقے سرنکن 27مارچ 2018کوپاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ چاکر ولد شے عبدالمجید بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔ سبی میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 21 سالہ نوجوان چاکر کوقتل کردیا۔
16جنوری
۔۔۔بلیدہ، تمپ اور شاہرگ سے لاپتہ 5 افراد بازیاب،بازیاب ہونے والوں میں 10 جون 2016 کیچ کے علاقے بلیدہ سے فوج کے ہاتھوں لاپتہ سہیل احمد ولد عبدالطیف اور 5 اپریل 2019 کو لاپتہ ہونے والے احسان اللہ، ہرنائی کے علاقے شاہرگ سے آٹھ مہینے قبل جبری طور پر لاپتہ ہونے والے ہزارخان سمالانی اور درمحمد سمالانی شامل ہیں۔
۔۔۔ پروم 17 مارچ 2017 کوپروم سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ خان جان ولد شیر محمد بازہاب ہوگئے جسے دوران آپریشن حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔آواران کے علاقے گیشگور گزی میں پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر فیض محمد ولد بجار، اللہ داد ولد فیض محمد، اور سلیم ولد محمد خان کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
17جنوری
۔۔۔خاران 4 مئی 2018 کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ رحمت اللہ ولد شکاری رادو خان بازیاب ہو گئے۔
۔۔۔عا رف جان ولد خدانظر 7 سا ل کے بعد باز یاب ہو کر گھر پہنچ گیا
۔۔۔ سالوں سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ چارافراد بازیاب ہوگئے۔فیض محمد قلندرانی ولد یار محمد سکنہ مچھ ایک سال سے،کامران ولد چمن خان آفریدی سکنہ ہدہ کوئٹہ ایک سال،محمد خان بگٹی ولد دھنی بخش سکنہ نصیراحمد 2 سال اور منظور احمد بلیدی سکنہ ڈیرہ مراد جمالی 2 سال بعد بازیاب ہو گئے۔
آواران: فوجی آپریشن سے زائد افراد کو فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والوں جمال ولد خدا بخش، ھاتر ولد مہراب،گنج بخش ولد پیر محمد،منظور ولد براہیم، سعید ولد محمد بکش، محمد یار ولد ویدی، نیک سال ولد ویدی، ویدی ولد بازید، شیر جان الد محمد بخش،قادر بخش ولد گنگُزار،عطا ولد نذر محمد،بشیر والد نذر محمد،کمالان،چار شمبے والد مُراد بخش نور محمد غنی ولد روستو اللہ بخش ولد کرین داد مصطفی خدابخش ولد بالاچ، نور بخش اوت امید والد نور بخش بھی شامل ہیں،ان تمام لوگوں کا تعلق مزار گوٹھ آواران سے ہے۔
ان لوگوں کو چند روز بعد تشددکے بعد رہا کردیالیکن امیت ولدنوربخش، نوربخش ولد رحیم داد،رحمت ولد آدم،یاسین ولد موسیٰ اور واحد ولددینار سکنہ مزار گوٹھ ابھی تک فوج کے تحویل میں ہیں
۔۔۔کیچ کے علاقے زامران سے پاکستانی فوج نے چار افرادعلیم ولد عظیم،عنایت اللہ،چاچا امین،چاچا اسلم کو حراست میں لے کرنامعلوم مقام منتقل کردیاان لوگوں کو پاکستانی فوج نے زامران کے علاقے نوانو سے حراست لیاتھا لیکن بعد ازاں انہیں چھوڑ دیا گیا۔
۔۔۔آواران سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے گیشگور گزی میں چھاپہ مار کر تین افراد فیض محمد ولد بجار، اللہ داد ولد فیض محمد، اور سلیم ولد محمد خان کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے۔
18جنوری
ڈیرہ مراد جمالی کے رہائشی منظور احمد مغیری 22 ماہ بعد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے مستونگ سے ڈھائی سال سے فوج کے ہاتھوں لاپتہ ظفراحمد ولد اسد خان بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔نیو کاہان کوئٹہ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ حقو خان مری ولد ملے شاہ سات سال بعد بازیاب ہوگئے۔
19جنوری
۔۔۔۔گوادر چاکر کتاب جاہ گوادر سے پاکستانی فوج کے ہاتھ لاپتہ نوجوان حنیف فیض محمدکل رات بازیاب ہو کر گھر پہنچ گیا۔
۔۔۔تربت بازار میں سنگانی سر منیر محلہ میں ایک چھاپے کے دوران پاکستانی فوج نے دو افراد اختر ولد غلام اور مراد ولد ایوب کو حراست لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
20جنوری
شاہرگ: دو بھائیوں کی بازیابی کے بعد تیسرا پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ،لاپتہ ہونیوالے کی شناخت لقمان ولد قادر بخش کے نام سے ہوا ہے واضح رہے کہ لقمان سمالانی کے دو بھائی ہزار خان سمالانی اور در محمد سمالانی آٹھ ماہ کی گمشدگی کے بعد گذشتہ روز بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے تھے۔
۔۔۔ہرنائی کے علاقے شاہرگ سے پاکستانی فوج نے چھاپہ مار کر حضور بخش مری ولد مولا داد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔
۔۔۔حافظ محمد اسماعیل بادینی سکنہ شریف خان نوشکی 3 سال کے بعد بازیاب ہو گئے۔
۔۔کوئٹہ کے علاقے نواں کلی بائی پاس میں پاکستانی فوج نے فائرنگ کرکے 2 افراد کو قتل کردیا۔
21جنوری
۔۔۔آواران تیر تیج سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ حسن بزنجو ولد لعل محمد بزنجو پانچ سال بعد نوشکی سے بازیاب ہوگئے۔جنہیں پاکستانی فوج نے 2015کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تاتھا۔
22جنوری
۔۔۔جھاؤ کے زیریں علاقے سوڑ میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے بلوچ سرمچاروں کا لبادہ اوڑھ کر نیک سال عرف دارو ولد محمد سکنہ سوڑجہل جھاؤکو گھر میں گھس کر قتل کردیا۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے کیچ کے علاقے خلیل آباد میں گھر پر چھاپہ مارکر باپ بیٹے کو حراست میں لے نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی شناخت ملّوک ولد ماسٹر کریم اور ماسٹر کریم کے ناموں سے ہوا ہے
23جنوری
۔۔۔پروم 17مارچ2017کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں لاپتہ عبدالمجید ولد عبدالرشید سکنہ پروم پنجگور اور تیرہ ماہ قبل بعد ظفر ولد استاد ظریف سکنہ گرمکان پنجگور ایف سی کیمپ سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔عبدالمجید کو چند گھنٹے بعد پھر سے حراست میں لے کر کیمپ منتقل کردیا بعد ازاں ان کو اگلے دن پھر سے چھوڑ دیا گیا
24جنوری
۔۔۔ 18اپریل 2018کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے نجیب ولد میار اور پرویز ولد جمعہ بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے ان کے ساتھ حراست بعد لاپتہ ہونے حمید اور حنیف بازیاب نہ ہوسکے۔
25جنوری
۔۔۔ مشکے کے دو ہائشی کو پاکستانی فوج نے کیچ سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے حراست میں لینے والوں کی شناخت بلال جان ولد حمزہ اور شاکر جان ولد داؤد کے ناموں سے ہوا ہے
26جنوری
خضدار، ہرنائی اور قلات میں فائرنگ کے واقعات میں خاتون سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
۔۔۔پاکستانی فوج کا ہوشاپ،گرد ونواح اور گورکوپ میں آپریشن،لوٹ مار بعد درجنوں گھر نذر آتش
27جنوری
۔۔۔دو سال قبل حراست بعد لاپتہ ہونے صاحب داد بگٹی ولد قادر بخش اور گل محمد بگٹی ولد قیصر خان بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
28جنوری
۔۔۔کوئٹہ جبل نور کے قریب سے ایک شخص کی لاش بر آمد ہوئی،
۔۔۔پاکستانی فوج نے راغے تنکی میں آپریشن کا آغاز کرکے چار افرادظہور ولد صادق،رفیق ولد ماما نور،خدارحم ولد قادر بخش اور حامد ولد بدل کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
۔۔۔۔پاکستانی فوج نے کیچ کے علاقے دشت دو کوف کے چار رہائشی ندیم ولد علی بخش،جہانزیب ولد الہی بخش حفیظ ولد مجید اور سالم ولد حسین کو مند سورو سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا
۔۔۔ پاکستانی فوج نے بلوچستان کے صنعتی زہر حب چوکی سے لال جان ولد خدا بخش کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے
29جنوری
۔۔۔ پروم سے فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے امتیاز نور بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔مستونگ سے چار سال قبل فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے قادر بخش سکنہ مستونگ بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔خضدار میں لیویز فورس سے جعلی مبینہ مقابلے میں ایک نوجوان مارا گیا جس کی شناخت مجیب الرحمن کے نام سے ہوئی ہے۔
30جنوری
کوئٹہ کرانی روڈ شاجی چوک پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے خاتون اور بچی ہلاک ہوگئے۔شناخت نہ ہوسکی۔
۔۔۔ بلیدہ جھڑپ میں پانچ بلوچ سرمچار۔۔۔۔۔۔ شہید ہوئے۔پارٹی عظیم قربانی پر شہدا کو خراج اور سرخ سلام پیش کرتاہے۔
۔۔۔ مستونگ سے یار محمد ولد انار گل سکنہ مشرقی بائی پاس کی لاش بر آمد۔شناخت نہ ہوسکی
۔۔۔واشک کے علاقے راگئے(راغئے) سے پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے گہرام ولد پیرجان اور محمد اسماعیل ولد پنڈوک کو حراست میں
لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔ دوران آپریشن پاکستانی فوج نے متعدد گھروں کو نذر آتش کردیا اور چار افراد کو گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی شناخت علی دوست،بہار،عزیز اور رحیم خان کے ناموں سے ہوئی ہے۔
۔۔۔ڈیرہ بگٹی پاکستانی فوج نے سے14جنوری سے لاپتہ عیسیٰ ولد شاہ زمان بگٹی کو ایک جعلی مقابلے میں قتل کردیا۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے مند مھیر سے اکتوبر کے مہینے میں حراست بعد لاپتہ ہونے والے فرید ولد نجیب بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے
آواران سے تین سال قبل فوج کےہاتھوں لاپتہ ہونے والے بختیار ولد ولید سکنہ ماشی آواران بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔
لیکر اپنے ہمراہ لے گئے جب وہ کوئٹہ سے پنجگور جارہے تھے۔