تفاوت – برزکوہی

514

تفاوت

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں تربت کے علاقے زامران بلیدہ میں پانچ سرفروش نوجوان سرمچار شہید ہوئے اور اگلے ہی روز سرمچاروں کے ہاتھوں اسی علاقے کے آس پاس دو پاکستانی فوج کے ایجنٹ مارے گئے، دونوں طرف بلوچ تھے لیکن ایک ایسی سیما طرفین کو یہاں بانٹتی ہے جو موت کے معنی تک بدل کر رکھ دیتی ہے۔ دونوں اطراف ایک واضح فرق۔ سرمچاروں کی شہادت پر پوری بلوچ قوم دکھ و پریشانی کے باوجود سینہ تان کر ان پر فخر کررہا تھا، ان شہیدوں کا نام لیکر جرت و بہادری کی مثالیں آج تک دے رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف موت سی خاموشی چھائی ہے، جس پر ماتم کنندہ تک منہ پر رومال ڈال چھپائے فاتحہ کررہے ہیں۔ ایک طرف موت ابدیت کا استعارہ بن گئی ہے اور دوسری طرف یہی موت عبرت کا نشان کہلائی جارہی ہے۔ ایک طرف موت، عنوانوں، کتابوں، خطابوں اور خیالوں میں تحلیل ہوکر نئی زندگی کی ابتداء بن گئی اور دوسری طرف یہی موت ایک بدبودار جسم بن کر منوں مٹی تلے ہمیشہ بھول جانے کیلئے دبا دیا گیا۔ ایک موت برائے زندگی، دوسرا موتِ محجوبی۔ یہ ایمان سے کہا جاسکتا ہے کہ پہلے کو اپنے گود میں لینے کیلئے دھرتی ماں بانہیں کھول کر استقبال کررہی ہوگی اور دوسرے کے جسم کو اپنے پہلو میں جگہ دینا اسے ناگوار گذرتی ہوگی۔

سرمچاروں کی شہادت ہمیشہ ایک المیئے سے زیادہ فخریہ حوالے بن جاتے ہیں، جو نا صرف قوم بلکہ انکے خاندانوں تک کا سراونچا کرنے کا باعث بنتی ہے، جس کی واضح مثال مردم خیز بلوچستان کے تاریخی علاقے آواران سے تعلق رکھنے والے بی ایل اے کے نوخیز سرمچار شہید ناجد جان عرف سیلم کی بہادر ماں کا ویڈیو پیغام ہے۔ جسے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، سن کر سوچنے پر مجبور ہوا کہ سرمچار جب وطن پر قربان ہوتے ہیں تو ان عظیم فرزندوں کو نا صرف ان کے دوست، خاندان، قوم بلکہ ان کی والدہ تک جی و جان سے قبول کرتے ہیں، سربلند کرکے ان پر فخر کرتے ہیں، اور برملا انہیں اپنا کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لختِ جگر تھے۔ لیکن دوسری طرف مارے جانے والے وہ بلوچ، جو غیرفطری ریاست پاکستان کی خاطر چند ٹکوں کے خاطر مخبری و ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں، جب وہ بھی مارے جاتے ہیں ان کو کوئی جرت کرکے اپناتا تک نہیں، حتیٰ کہ ان کو پالنے والی ریاست بھی ان کو اپنانے سے گریز کرتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، دوست و رشتے دار، اولاد و بیوی اپنی جگہ سب کے سب شرمندگی سے خاموش ہوکر اپنے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ہی انکے نام ظاہر ہوتے ہیں، ورنہ انہیں کس نامعلوم قبر میں اتارا جاتا ہے، جہاں انکا نام جسم کے ساتھ ہمیشہ کیلئے دفن ہوجاتا ہے۔

بلوچ وطن کے شہداء کے حوالے سے ان کے دوست، قبیلہ، علاقہ، ماں بہن، رشتہ دار، سب فخر سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ شہید ہمارا تھا، اور سب کے سب فخر سے کہتے ہیں، شہید اپنی زندگی میں قوم و وطن کی خاطر لڑکر دشمن کے خلاف جان دے گیا۔ دوسری طرف ریاستی مخبر کے حوالے سے اس کا خاندان تک ہرجگہ صفائیاں پیش کرتے نظر آتا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا، بس بے وقوفی میں استعمال ہوا ہے۔ کیا آج تک کسی ریاستی دلال کے ماں باپ، بچے بیوی، بھائی وغیرہ نے کبھی ویڈیو پیغام کے ذریعے آکر کہا ہے کہ مجھے فخر ہے میرا بیٹا یا بھائی پاکستان اور پاکستانی فوج کے خاطر بطور کارندہ و مخبر کام کرکے مارا گیا ہے؟ سرمچار کی موت شعور، علم، عقل، قربانی اور آفاقیت کے معنوں میں تشریح ہوتی ہے جبکہ دلال کی موت نا سمجھی، بیوقوفی، شرمساری اور لالچ کا استعار بن جاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

اس واضح فرق کو سمجھنا و پرکھنا اور جاننا ہوگا اور اس فرق کو سمجھنے اور جاننے کے لیئے احساس، جذبہ، شعور و آگاہی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وطن و قوم کی بقاء و آزادی کے لیے لڑنا بغیر بہادری و ہمت سے کبھی بھی ممکن نہیں، یہ آگ و خون کا کھیل صرف بہادروں کاکام ہے، نہ کہ گیدڑوں کا کام ہوتا ہے۔

آج اگر کہیں بھولے سے کسی جگہ ریاستی کارندوں کا کوئی زبانی و کلامی اور مصنوعی عزت و احترام اور جی و جان ہوتا ہے، تو وہ صرف اور صرف لالچ یا خوف کی وجہ سے ہوتا ہے، ہمدردی کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن سرمچاروں کی موت فضاء میں پھیلے خوشبو کی طرح خود بخود ہر جگہ پہنچتی ہے اور ہر کوئی ظاہراً یا باطنی طور پر بلا لالچ و خوف اسے قبول کرکے بخوشی سینے سے لگاتے ہیں۔

کئی موقعوں پر پاکستانی فوجی خود اظہار کرچکی ہے کہ یہ دلال و کارندے جب اپنے وطن و قوم کے نہیں ہوسکے تو ہمارے پاکستان کے کیسے وفادار ہونگے، باقی بلوچ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے سرزمین، قوم تحریک اور دوستوں کا نہیں ہوسکا تو وہ پھر کسی کا بھی نہیں ہوسکتا۔

یہ جو بعد از مرگ ایک جیسے لوگوں کی باٹ و تقسیم ہے، یہ تقسیم جو جو دو خانوں میں بانٹ رہی ہے، یہ تقسیم جو کسی کو سربلند و کسی کو سرمشار بنادیتی ہے، اس تقسیم کا تحرک نا خاندانی و قبائلی نسبت ہے، نا ہی ذات کے سیڑھی کے اونچائی کا پیمانہ۔ یہ تقسیم فیصلہ ہے، یہ تقسیم مقصد ہے۔ انکے مرنے کے بعد انہیں کس خانے میں رکھ کر یاد کیا جائے گا یا بھلا دیا جائے گا، اسکا فیصلہ تو بہت پہلا ہوچکا ہوتا ہے، انکے مرنے سے بہت پہلے اور یہ فیصلہ وہ خود کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم، مقصد ہے۔ جیسا کہ سینٹ آگسٹائن نے کہا تھا کہ “موت شہید نہیں بناتی، بلکہ موت کے پیچھے جو مقصد ہے وہ شہید بناتی ہے۔” سرمچاروں اور ریاستی دلالوں کے بیچ کا فرق بھی یہی مقصد ہے۔ ہر سرمچار اپنی ذات میں ہی ایک صوفی ہوتا ہے، بدھا کا زندہ اوتار ہوتا ہے، کیونکہ سرمچار بننے کا پہلا شرط ہی نفس و ذات کے قید سے آزادی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پھر یہی آزاد انسان، بغیر کسی ذاتی مقصد، لالچ و غرض کے ایک پوری قوم کو آزاد کرنے نکلتے ہیں۔ وہ جو نفس و ذات سے آزاد ہوئے، پھر وہ جسم کے محتاج نہیں، موت تو بس اس ایک جسم کا سکوت ہے، جس سے وہ بہت پہلے آزاد ہوچکے تھے۔ جبکہ قوم فروش تو ذات و نفس کا غلام ہوتا ہے، وہ اس ذات و نفس میں قید رہ کر اسے خوش رکھنے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے، وہ قوم بیچ سکتا ہے، بھائی مروا سکتا ہے، ماں بہنوں تک کا سودا لگا سکتا ہے۔ اس نفس کے قیدی کا موت نفس کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے۔ یہی تو فرق ہے۔

موت کی سچائی اٹل ہے، اس سے کوئی علم انکار نہیں کرسکتا تو پھر سچائی سے بھاگ کر سچائی سے بچ جانا کیا ممکن ہے؟ سچائی سے ڈر کر سچائی کو نظر انداز کرنا، پھر بھی ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے کی امید و توقع رکھنا قانون فطرت کے خلاف نہیں ہے؟ موت سچ ہے، موت اٹل ہے، مذہب، سائنس، فلسفہ سب کے سب اس سے انکار نہیں کرسکتے ہیں تو پھر دنیا میں وہ کونسا جادو و علم ہے، جو سچ و اٹل حقیقت موت سے کسی انسان کو ہمیشہ ہمیشہ بچا سکے؟

موت جہاں بھی ہوگا، کہیں بھی ہوگا، کیسا ہوگا، شاید یہ کچھ حد تک انسان کے اختیار میں نہ ہو، مگر موت سے پہلے انسان کے عمل و کردار اور کارکردگی کا مکمل اختیار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے، ابھی یہ انسان ہی کے سوچ و اپروچ اور زاویہ نظر پر منحصر ہے، کہ وہ کیا سوچتا اور کیا کرتا ہے۔

البتہ یہ حقیقت آج سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ شعور و آگاہی کے کوکھ سے جنم لینے والی بہادری و ہمت، قومی جنگ ہی سے پیدا ہوکر پورے سماج کو متاثر کررہی ہے۔

جنگ سے پہلے جن کو گوارہ نہیں تھا کہ انکے پیارے تیز دھوپ میں بیٹھیں، لیکن آج وہی والدین، بہن بھائی، دوست و رشتے دار اپنے پیاروں کے خون سے لت پت اور مسخ شدہ لاش پر فخر کرتے ہیں، یہ تو قوموں میں شعور و علم کی واضح علامت ہے۔

باعلم و باشعور قوموں کو کوئی غلام نہیں رکھ سکتا ہے، تو شعور و علم کے پھیلاؤ و بلندی اور سماج میں انقلابی تبدیلی میں مرکزی کردار جنگ کا ہے، وہ جنگ ہی ہوگا جو وطن فروشوں اور وطن کے پاسبانوں کے مابین حقیقی فرق و کردار کو لیکر قومی بیداری کو اجاگر کریگا۔

یہ تقسیم اب ایک باریک لکیر نہیں بلکہ خون کے دریا کی صورت مابین بہتے ہوئے انتہائی واضح ہے، اب یہ نظر انداز نہیں ہوسکتا۔ دریا کے اِس پار آو کہ یہیں سے تاریخ کا ابتداء و یہیں انتہاء ہے، اور دریا کے دوسرے پار غرق آبی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔