بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی بربریت میں تیزی کے پیش نظر بی ایل ایف اپنی چند پالیسیوں میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔
آئے دن خواتین اور بچوں پر تشدد اور اغواایسی مثالیں ہیں جن سے نبردآزما ہونے کیلئے بلوچ مسلح تنظیموں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ کراچی سے نو کمسن بچوں اور طلبا کا پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغوا ایک ایسی دلخراش واقعہ ہے، جس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر تنظیم، جماعت اور ادارے کا انسانی حق بنتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں اور طریقہ کار کے مطابق اس کے خلاف عمل کا آغاز کرے۔
ہنگامی حالت میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان بچوں کے اغوا اور خواتین پر تشدد کے خلاف بلوچ نیشنل فرنٹ کے پہیہ جام ہڑتال کے کال کی حمایت کرتے ہوئے تمام یونٹوں کو متحرک رہنے کا حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اس ہڑتال کو کامیاب بنانے کیلئے کوششیں تیز کریں۔
ہم ٹرانسپورٹرز سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ معصوم بچوں کی رہائی تک اپنی گاڑیاں سڑکیں میں نہ لائیں۔ یہ ٹرانسپورٹرز کا قومی، اخلاقی اور انسانی فرض بھی ہے کہ وہ ان مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ گوکہ اس عمل سے کئی لوگوں اور کاروباری حضرات کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا مگر جن افراد کو پاکستانی اداروں نے اُٹھا کر غائب کیا ہے، یہ تکلیف ان کی تکلیف سے زیادہ نہیں ہوگی۔ پاکستان بلوچ قوم کو واضح پیغام دے چکا ہے کہ آپ کے خلاف کارروائی میں عمر اور جنس کا تفریق ختم ہوچکا ہے۔ ہمیں پاکستا ن سے رحم نہیں بلکہ آزادی چاہیے،
جس کا اظہار ہر بلوچ کر رہاہے اور رد عمل میں پاکستان کمسن بچوں اور خواتین کے اغوا پر اُتر آیا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں میڈیا ہاؤسز سینکڑوں کے حساب سے موجود ہیں مگر بلوچ قوم سے جڑے کسی بھی مسئلے پر وہ اپنے لب سی لئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ایسے اعمال ہمارے میڈیا بائیکاٹ کے مہم کو حق بجانب قرار دینے میں کافی ہیں۔ ہم آزاد اور غیرجانبدار صحافت کے ماننے والے ہیں اور اس حوالے سے ہماری جدو جہد جاری رہی گی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔