ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے فلسطین اسرائیل امن منصوبے کی مذمت کی ہے۔
ایران کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ صدی کی سب سے بڑی غداری ہے، یہ امریکا کا فلسطینیوں پر مسلط کردہ شرمناک اور ناکام منصوبہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے اپنا دو ریاستی فارمولہ پیش کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں مشرقِ وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔
ٹرمپ کی پریس کانفرنس میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور اومان کے سفیروں نے شرکت کی۔
امریکی صدر نے کہا کہ فلسطین کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس میں ہوگا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ منصوبے کے تحت مغربی کنارے کو تقسیم نہیں کیا جائے گا یعنی مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے میں موجود علاقوں کو فلسطینی ریاست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
ٹرمپ نے فلسطینی صدر محمود عباس کو مخاطب کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ آپ کو ہمارا امن منصوبہ تسلیم کرنا ہوگا، اگر آپ ہمارا امن منصوبہ تسلیم کریں تو ہم آپ کی مدد کریں گے۔
ٹرمپ نے حماس اور غز ہ کو غیر مسلح کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ ٹیمپل ماؤنٹ پر تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اسٹیٹس کو برقرار رہے گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ مسلمانوں نے 1948ء میں تاریخی غلطی کی اب اس کا ازالہ کریں، اس وقت مسلم ریاستوں نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا اور اسرائیل پر حملے کا انتخاب کیا۔
امریکی صدر نے متحدہ عرب امارات، بحرین اور اومان کی جانب سے اپنے سفیروں کو وائٹ ہاؤس بھیجنے پر ان ممالک کا شکریہ ادا کیا۔
ٹرمپ نے بتایا کہ انہوں نے فلسطینی صدر محمود عباس پر واضح کر دیا تھا کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کے لیے مختص علاقے میں 4 سال تک تعمیرات کی اجازت نہیں ہو گی۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ فلسطین کی مستقبل کی مجوزہ ریاست کو غیر مسلح کیا جائے گا۔
اسرائیل کے لیے امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے کہا ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں آباد غیر قانونی آبادیوں کو اسرائیل میں شامل کر سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ٹرمپ کے امن منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اپنے زیرِ تسلط علاقوں کا قبضہ نہیں چھوڑے گا۔
ادھر فلسطین نے ٹرمپ کا امن منصوبہ مسترد کر دیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے خلاف فلسطینی تنظیمیں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن، حماس اور اسلامی جہاد متحد ہوگئی ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے مشرقِ وسطیٰ منصوبے کو مسترد کر دیا اور واضح کیا ہے کہ اگر مقبوضہ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہیں تو ہم اسے کیسے قبول کریں گے؟
امریکی صدر کے اعلان کے بعد رملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس برائے فروخت نہیں، ہمارے حقوق برائے فروخت نہیں، آپ کا سازشی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔
ان کے خطاب کے موقع پر فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن، حماس اور اسلامی جہاد کے ارکان نے بھی شرکت کی جو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے خلاف فلسطینیوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔
حماس کے عہدیدار نے کہا کہ امن منصوبے پر ٹرمپ کے بیانات جارحانہ ہیں اور یروشلم کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کی تجاویز بکواس ہیں۔
غزہ کی پٹی میں حماس گروپ کی رہنمائی کرنے والے سمیع ابو زہری نے برطانوی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ٹرمپ کا بیان جارحانہ ہے اور اس سے سخت غم و غصہ پیدا ہوگا۔
امریکی صدر کے اعلان کردہ منصوبے کے بعد حماس اور الفتح کے رہنماؤں میں ملاقات ہوگی۔
الفتح کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ ہم نے حماس کو ہنگامی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جو انہوں نے قبول کرلی ہے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے خلاف فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہرے ہوئے، رملہ اور غزہ سمیت کئی شہروں میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے ان مظاہرین پر فائرنگ بھی کی گئی۔
برطانوی وزیرِ اعظم کے دفتر نے ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ امن منصوبہ مثبت اقدام ثابت ہوگا۔
سعودی عرب کی جانب سے ٹرمپ کے امن منصوبے کی کوششوں کی تعریف کی گئی ہے۔
روس نے ٹرمپ کے منصوبے کے اعلان کے بعد اسرائیل اور فلسطین پر زورد یا ہے کہ وہ براہِ راست مذاکرات کریں۔
عرب لیگ نے امریکی صدر کے منصوبے کے اعلان کے بعد ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔