سراج نور کے تحریر کے تناظر میں
تحریر: سفرخان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ پہ سراج نور نامی لکھاری کا ایک تحریر پڑھنے کا موقع ملا، مذکورہ لکھاری کا موقف تھا کہ وہ ریڈیو زرمبش بلوچی پہ تنقید کر رہا ہے۔
پہلے پہل، کیا سراج نور یہ جانتا ہے کہ تنقید کس کو کہتے ہیں؟ اور وہ جانتا ہے کہ تنقید کس طرح کرتے ہیں؟ کیا وہ جانتا ہے کس نوعیت کی تنقید کو کہا ں اور کیسے کرتے ہیں؟ سراج نور زرمبش میڈیا پہ تنقیدکر رہا ہے، کیا سراج نور میڈیا کے اصولوں سے واقف ہے کہ میڈیا کیسے کام کرتے ہیں اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ اور میڈیا کو اپنے لئے کس وقت کیسے موضوعوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا ان تمام چیزوں کا علم سراج نور کو ہے؟ تحریر کو اگر کوئی پڑھے تو یہ بات سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہوتی ہے، اور ان تمام چیزوں کے بارے میں مذکورہ لکھاری کے پاس علم کا خزانہ زیرو بٹا زیرو ہے۔
مگر یہ بات نہیں ہے کہ یہ باتیں صرف سراج نور تک محدود ہیں، آج ہم میں اس طرح کے ذینیت کے لوگ بہت ہیں جنکی ذہنیت میڈیا کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی ذہنیت سے مختلف نہیں ہے، گزشتہ سال جب دی بلوچستان پوسٹ کی جانب سے نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک کا انٹرویو شائع ہوا تھا تو ہم میں سے بہت سے لوگوں نے یہی موقٖف اختیار کیا تھا کہ دی بلوچستان پوسٹ نے ڈاکٹر مالک کا انٹرویو کیوں لیا ہے؟ اگر ہم اس طرح کے ذہنیت کے مالک ہیں تو کیوں ہم اس بات سے گلہ کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا آزاد نہیں ہے اور کیوں ہمیں کوریج نہیں دیتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں آزاد میڈیا کا وجود باقی نہیں ر ہا ہے، اگر دی بلوچستان پوسٹ اور زرمبش آزاد میڈیا کی شاہراہ پر گامزن ہیں تو کیوں ہمیں یہ بات راس نہیں آتی۔ کیوں ہم یہ چاہتے ہیں میڈیا بھی ہمارے ذہنوں کے مطابق کام کرے۔ اگر سراج نور نے تحریر لکھی بھی ہے تو یہ بندوق کسی اور نے سراج نور کے کندھے پر رکھ کر چلائی ہے، اور اس بات کا بخوبی اندازہ بھی ہے کہ آگ کہاں لگی ہے اور دھواں کہاں سے نکل رہی ہے۔
چلتے چلتے سراج نور کی لکھی ہوئی تحریر پہ بھی ہلکی نظر دوڑائیں گے، سراج نور اپنے پورے تحریر میں یہ بات واضح نہیں کر پایا ہے کہ وہ تنقید کس پہ کر رہا ہے اور سراج نور کو کس بات پہ اعتراض ہے، اگر سراج نور بلوچی زبان کے بارے میں کرینہ جہانی کی لکھی ہوئی کتاب پہ تنقید کر رہا ہے کیا سراج نور نے ابھی تک کرینہ جہانی کی لکھی ہوئی کتاب پڑھی ہے؟ کیا سراج نور لسانیت کے بارے میں علم رکھتا ہے؟ کیا سراج نور کو بلوچی زبان پہ عبور حاصل ہے؟ سراج نور اپنے خود کی لکھی ہوئی تحریرمیں اس بات کا ذکر کر چکا ہے کہ سید ظہور شاہ ہاشمی نے کہا کہ رومن بلوچی زبان کے لئے اچھا ہے اور یہ بھی کہتا ہے بلوچی زبان صرف مکران تک محدود نہیں ہے، تو پھر آپ کس سائیڈ پہ ہو اور کہنا کیا چاہتے ہو! پہلے آپ اپنے آپ کو کلیئر کریں پھر آکر تنقید کریں ، اور تنقید کرنے سے پہلے آپ کو یہ معلوم بھی ہونا چاہیے کہ تنقید خود کیا ہے، کسے کہتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ آپ کے ذہن میں جو آئے آپ لکھ لیں اور وہ تنقید کے زمرے میں آجائے ۔ جس چیز کے بارے میں آپ تنقید کر رہے ہو اس کے بارے میں بھی آپ کے پاس علم ہونا چاہیے۔
مذکورہ لکھاری نے اپنے تحریر میں انتہائی غیر سنجیدہ اور بیہودہ بات کہی ہیں کہ تربت اور پنجگور میں بلوچی کلچر دکھائی نہیں دیتا۔ بلوچی کلچرل میں چند چیزوں کو بحیثیت سِمبل پیش کی جاتی ہے ان میں سے ایک“ میارجلی ،،اور“ مہمانداری،، سراج نور صاحب پنجگور کے حدود میں داخل ہوکر اور پورے پنجگورمیں گھومنے کے بعد آپ ایک ایسا ہوٹل یا مقام نہیں ملے گا جہاں لوگ پیسے دے کر کرایے کا ایک کوٹھی خرید کر ایک دن یا ایک رات قیام کرے۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ پنجگور میں دوسرے شہروں سے لوگ آیا نہیں کرتے، پنجگور میں روزانہ کے بنیاد پر مغربی بلوچستان اور اندورن پنجگور سے لوگ آتے ہیں اور قیام کرتے ہیں اور آپ کو انشاء اللہ ایک دن یہ دیکھنے کو نصیب نہیں ہوگا کہ ایک مسافر آسمان تلے کسی سڑک یا کسی فٹ پاتھ پہ رات گزار رہا ہے، جناب اگر آپ کو مثال دینا تھا تو اچھی مثال دیتے، یہ نہیں کہ آپ کے دل میں جو آئے آپ دیں اور جس سے لوگوں کی تذلیل ہو باقی بات رہی بلوچ کلچرل کی تو پنجگور اور تربت میں کب لوگوں نے بلوچی پوشاک کو مسترد کی ہے، ویسے کلچر زندگی گذارنے کے طریقے کو کہتے ہیں اور دنیا ہر روز تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہے ضرورت کے مطابق ہر چیز میں تبدیلیاں رونما ہورہے ہیں، ہر چیز کے استعمال میں آسانی ہورہا ہے یہ بھی نہیں کہ ماضی میں بلوچوں نے ٹھنڈی پانی کیلئے مشکیزے کا استعمال کیا ہے اور روز قیامت تک مشکیزے کا استعمال کرتے ہیں اور فریج سے دور بھاگتے رہے ہیں کہ مشکیزہ ہمارے کلچرل کا حصہ ہے اور اسے استعمال کرکے ہم خالص قوم پرست ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ قوم پرست ہونے کا ثبوت نہیں بلکہ جاہلوں کی جنت میں رہنے کا نام ہے۔
یقینا سراج نور اس بات کو اچھی سمجھ جائینگے کہ آئندہ کچھ لکھنے سے پہلے کئی چیزوں کا خیال رکھا جائیگا، جس سے کسی کے جذبات کو ٹھس نہ پہنچے اور اس کے لکھی ہوئی تحریر سے کسی کو کچھ فائدہ بھی پہنچ جائے۔ اور لکھنے کے ساتھ وہ پڑھنے کی جانب بھی متوجہ ہوگا اور کچھ لکھنے سے پہلے اس پہ ضرور تحقیق کریگا اور اصل چیز کے تہہ تک پہنچ کر پھر کچھ لکھنے کی جسارت کرے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔