بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی وائس چیئرپرسن مروارد بلوچ نے ڈیرہ بگٹی میں سیکنڈری اسکول اینڈ گرلز کالج میں خواتین کے واش رومز میں کیمرہ لگانے کی عمل کو شرمناک عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات ماضی کے تاریخوں میں بھی آقاؤں اور حاکموں نے محکوم اور غلام قوموں کے ساتھ نہیں کی ہے جس طرح کے اعمال ریاست پاکستان ہمارے ساتھ کر رہی ہے ۔
مروارد بلوچ نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا ایک جنگ زدہ علاقہ ہے جہاں شرح خوانندگی پہلے سے کم ہے۔ ایک طرف ریاستی ظلم و ستم کی وجہ سے اکثریت لوگوں وہاں سے نقل مکانی کی ہے اور تعلیم جیسے زیور کو خیر باد کی ہے جتنے بچے کچے لوگ ہیں ان کے بچے پڑھتے ہیں لیکن ریاست کی جانب سے اور ان کے کارندوں کی جانب سے ایسے حرکت کرکے انہیں تعلیم چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ڈیرہ بگٹی میں طالبات کو حراساں کیا گیا ہے جب طلبہ اپنے حقوق کیلئے اور ایسے شرمناک حرکتوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے آگے آئیں تو ان کو اداروں کی جانب سے دھمکایا جا رہا ہے۔
وائس چیئرپرسن نے مزید کہا کہ اس پہلے بھی بہت سے کیسز ہراسمنٹ کے حوالے سے سامنے آئی ہے اور خاص کر بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل جو کہ اپنی نوعیت کا خطرناک اسکینڈل تھا جہاں اجتماعی طور پر طلبہ کو خاص کر طالبات کو انتظامیہ سے لیکر سیکیورٹی فورسز تک ہراساں کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور نہ ہی ملوث عناصر کو سزائیں دی گئی ۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی خاموشی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس طرح کے واقعات ریاست کے پیرول پر ہو رہے ہیں ۔ جن کا ایک ہی واضح مقصد ہے کہ بلوچ طالبات کو تعلیم سے دور رکھنا اور ذہنی طور پر ٹارچر کرنا ہے ۔
مروارد بلوچ نے اپنی بیان کے آخر میں کہا کہ تمام طلبہ اور خصوصاّ طالبات کو چاہیے کہ وہ ریاستی پروپیگنڈہ کو سمجھیں اور ذہنی طور پر ان سے مقابلہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھیں اس کیلئے سب سے ضروری چیز تعلیم یافتہ ہونا ہے لہٰذا کسی بھی حال میں تعلیم کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔