جنگی حکمتِ عملی | قسط 31 – پیش قدمی

226

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 31 – پیش قدمی

سپاہ جب مورچہ زن ہوجاتی ہے اور دشمن سپاہ کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے تو اسے دشمن فوج کی صورتحال کو جانچنا‘ پر کھنا پڑتا ہے‘ اس کیلئے درج ذیل باتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے وادیوں کے کناروں قریب ٹھکانہ کرنا چاہئے‘ جہاں ٹھکانہ ہو وہاں فوجی پڑاؤ بالائی سطح پر ہو اور سورج کو سامنے ہونا چاہئے لیکن اگر بالائی حصہ پر دشمن نے قبضہ کرلیا ہے تو اس پر حملے کیلئے پہاڑی پر چڑھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے‘ بہر صورت پڑاؤ پہاڑ کے دامن میں ہی کرنا ضروری ہے۔

دریا پار کرلیں تو آپ کو تھوڑا ساپیدل فاصلہ طے کر کے دریا سے کچھ فاصلے پر رہنا چاہئے‘ اگر دشمن دریا پار کررہا ہے تو دریا کے بیچ میں آکر اس کا مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اسے نصف لشکر اتارنے جتنی مہلت دی جائے‘ اس کے بعد اس پر حملہ کریں‘ پڑاؤ بالائی سطح پر اور سورج سامنے ہونا چاہئے‘ اپنا عسکری پڑاؤ دشمن کے قریب میدانی سطح پر قائم کرنا درست نہ ہوگا‘ یہ اصول دریا کے کنارے قائم شدہ پڑاؤ سے متعلق ہے۔

نمکین پانی کے علاقے تیز رفتاری سے پارکر جانے چاہئیں‘ ایسے علاقے میں سست رفتاری سے کام نہیں لینا چاہئے‘ اگر دشمن ایسے علاقے میں مقابلے پر اتر آتا ہے تو آپ گھاس کے قریب مورچہ سنبھالیں‘ اس طرح کہ پانی اور درخت آپ کے لشکر کی پشت پر ہوں‘ اس قسم کی مورچہ بندی نمکین پانی سے متعلق ہے۔

جب آپ کھلے اور نم میدان میں ہوں تو ایسے محل وقوع کا انتخاب کریں جو آپ کی جنگی سرگرمی کیلئے سہولت آمیز ہو‘ کوشش یہ کی جائے کہ اونچی سطح آپ کی پشت پر دائیں‘ بائیں ہو یا جنگی میدان سامنے۔ اس طرح پیچھے سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا‘ اس نوعیت کی مورچہ بندی براہِ راست کھلے میدان سے متعلق ہے۔

ان چاروں تجاویز میں عسکری پڑاؤ سے متعلق اصول ہیں‘ ان اصولوں پر عمل کرکے پہلے شہنشاہ نے اپنے قریبی حکمرانوں کو شکست دی تھی۔ (یہ بات ایک دیومالا سے تعلق رکھتی ہے کہ پہلا بادشاہ قدیم عہد کے چین سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی حکومت پانچ ہزار برس تک چلی تھی۔)

جنگ کے دوران ہر فوج اونچی سطح پر مورچہ زن ہونا چاہتی ہے اور درختوں کی چھاؤں سے زیادہ دھوپ کو ترجیح دیتی ہے‘ اگر کوئی فوج پہلے سے اونچی سطح پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ اس کی رہائش کیلئے زیادہ باسہولت ہوتی ہے اور یہ فوج کئی امراض سے بھی بچ جاتی ہے اور اس کی فتح کے امکان زیادہ روشن ہوتے ہیں‘ جب آپ پہاڑی علاقوں میں پہنچیں یا کسی اونچی سطح پر ہوں تو آپ دھوپ والی طرف پڑاؤ ڈالیں‘ ایسے طریقے جنگ میں بڑی سہولت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایسی سہولتیں زمینی سطح کے باعث مل جاتی ہیں‘ بارش ہوتی ہے تو بالائی سطح سے آنے والا پانی دریا میں آکر گرتا ہے‘ دریا کو اس وقت پار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے اترنے تک انتظار کرنا چاہئے‘ جہاں پہاڑی ندیاں‘ قدرتی کنویں‘ قدرتی پیچرے‘ قدرتی آبشاریں‘ قدرتی پانی کے بہاؤ کے راستے اور فطری گھاٹ ہوں ایسے مقامات سے تیز رفتاری سے پار اترنا چاہئے اور ان سے زیادہ فاصلے پر رہنا چاہئے بلکہ دھوکہ دے کر دشمن کو اس کے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے‘ ایسے خطرناک مقامات آپ کے سامنے اور دشمن کی پشت پر ہونے چاہئیں‘ اگر آپ کی سپاہ کے اطراف میں تنگ درے بہت زیادہ ہوں یا گہری کائی سے ڈھکے ہوئے پانی کے تالاب ہوں تو وہاں جھاڑیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں یا گھنے جنگلات سے ڈھکے ایسے پہاڑ ہوں جن کا نچلا حصہ انتہائی گھنا ہوتا ہے تو آپ کیلئے ضروری ہے کہ ایسے مقامات کو اچھی طرح سے پرکھیں‘ جائزہ لیں کیونکہ ایسے مقامات پر دشمن چھپ کر حملے کرتا ہے اور اپنے جاسوس چھپا کر بٹھاتا ہے۔

دشمن آپ کے قریب اور خاموش ہوتو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے جس محل وقوع کا انتخاب کیا ہے وہ اس کیلئے سہولت آمیز ہے‘ جب آپ کو درخت ہلتے ہوئے محسوس ہوں تو جان لیں کہ دشمن آپ کی اور آگے بڑھ رہا ہے‘ جب وہ دور سے آپ کو جنگ کیلئے للکارے تو آپ کو سمجھنا چاہئے کہ وہ دھوکے سے آپ کو آگے بڑھنے پر اکسارہا ہے‘ اگر درختوں کے جھرمٹ میں پردوں جیسی تشبیہہ موجود ہے تو آپ کو سمجھ لینا چاہئے کہ دشمن دھوکہ کررہا ہے جس جگہ سے پردے ذرا اڑ کراوپر نظر آئیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس جگہ پر دشمن اچانک حملے کیلئے چھپ کر بیٹھا ہے‘ جب جنگلی جانور چونک کربھاگنا شروع کردیں تو جان لینا چاہئے کہ دشمن آپ پر اچانک حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔

اوپر کو اٹھی ہوئی دھول اگر سیدھی لکیروں کی صورت میں نظر آئے تو سمجھنا چاہئے کہ دشمن کے رتھ اور گھوڑے قریب آپہنچے ہیں‘ اگر اڑتی ہوئی دھول نیچے دور اور پھیلی ہوئی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ پیدل فوج قریب آپہنچی ہے‘ اگر اڑتی ہوئی مٹی نظر آرہی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ دشمن فوجی کیمپ نصب کررہا ہے‘ جب دشمن کا سفیر آپ سے نرمی سے بات کررہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دشمن حملے کیلئے تیار ہے‘ جب سفیر کی گفتگو کھری اور لہجہ روکھا ہے اور اس کی فوج آگے بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دشمن پیچھے ہٹنا چاہتا ہے‘ اگر ہلکی قسم کے رتھ سب سے پہلے باہر نکل کر فوج کے پہلو میں ترتیب سے آکر رک جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ دشمن تیاریوں میں مشغول ہے۔

اگر بات چیت سے قبل دشمن عارضی جنگ بندی کیلئے کہتا ہے توسمجھ لینا چاہئے کہ وہ کوئی نیا منصوبہ تیار کررہا ہے‘ جب اس کی فوج تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور وہ جنگی رتھوں کی مشقیں کررہا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ نئی آنے والی فوج کی توقع کررہا ہے‘ جب اس کی نصف فوج پیش قدمی کررہی ہے اور نصف فوج پیچھے رہتی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ آپ کو دھوکہ دے رہا ہے‘ جب آپ دیکھیں کہ دشمن کا لشکر ہتھیاروں کا سہارا لے کر چل رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بھوک سے مررہے ہیں‘ جب دیکھیں کہ فوجی پانی کیمپ میں لے جانے سے قبل خود پی رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ وہ پیاسے ہیں‘ اگر دشمن سنہری موقع پاکر بھی آپ کا راستہ نہیں روکتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تھک چکا ہے‘ اگر دشمن کے کیمپ والی جگہ پر پرندے اڑتے نظر آئیں تو سمجھ لیں کہ دشمن نے پڑاؤ اٹھالیا ہے اور جگہ خالی ہے‘ جب دیکھیں کہ رات کے اندھیرے میں دشمن شور وغل مچارہا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ گھبرا چکا ہے۔

سپاہ میں اگر نظم و ضبط نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جرنیل اپنا وقار کھوچکا ہے‘ جب اس کے جھنڈے اور نشان کبھی یہاں تو کبھی وہاں دکھائی دے رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ جرنیل میں بدنظمی پیدا ہوچکی ہے‘ جب اہلکار چڑچڑے ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ تھک چکے ہیں‘ جب فوج، اناج گھوڑوں کو کھلائے اور خود کھانے سے گریز کرے اور کھانے پینے کے برتن اپنی جگہ پر نہ رکھیں اور دفاعی ٹھکانوں میں پناہ لینے کی کوشش نہ کریں تو سمجھ لیں کہ وہ جان جوکھم میں ڈالنے کو تیار ہیں‘ جب فوج مسلسل ٹولیوں میں تقسیم ہوکر کھسر پھسر کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ جرنیل فوج کا اعتماد کھوچکا ہے۔
جرنیل غیر اہم باتوں پر انعام تقسیم کررہا ہے تو جان لینا چاہئے کہ جرنیل کے پاس موجود ذرائع ختم ہوچکے ہیں‘ اگر وہ ذرا‘ ذرا سی بات پر سپاہیوں کو سزا دے رہا ہے تو اس کا مطلب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہے‘ اگر شروع میں عملدار سپاہیوں کو سخت سزائیں دے رہے ہیں اور پھر ان سے ڈر رہے ہیں تو اس کا مطلب کہ ان میں فکری عمل ختم ہوچکا ہے‘ جب دشمن فوج غم و غصے میں پیش قدمی کررہی ہے اور آپ کو دیکھ کر زیادہ وقت کیلئے جنگ نہیں کررہی اور نہ ہی آپ کوچھوڑنے کیلئے تیار ہیں تو ایسی صورتحال سے خبردار رہنا چاہئے اور معلوم کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے۔

جنگ میں محض سپاہ کی برتری کافی نہیں ہوتی بلکہ یہی کافی ہے کہ آپ جنگی قوت کے سہارے پیش قدمی نہیں کررہے‘ اگر آپ نے دشمن کی صورتحال سے متعلق صحیح اندازہ لگایا ہے اور دشمن پر غالب آنے کیلئے فوج کو ایک جگہ پر لاکر جمع کیا ہے تو آپ نے یہ بالکل صحیح کام کیا ہے اگر کسی میں دور اندیشی یا شعور ہی نہیں ہے اور وہ دشمن کو کمتر و کمزور سمجھ رہا ہے تو یقین جانئے کہ دشمن اس پر قابو پا کر اسے جنگی قیدی بنالے گا۔

اگر فوج کو ان کی وفاداری پرکھے بناء سزا دی جائے گی تو وہ حکم نہیں مانے گی‘ اگر فوجی سپاہی وفادار نہیں ہیں تو پھر آپ ان سے کام نہیں لے سکیں گے لیکن اگر سپاہی آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان میں نظم و ضبط نہیں ہے تو بھی آپ ان سے کام نہیں لے سکیں گے‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ انہیں شرافت سے حکم دیں اور انہیں نظم و ضبط کے ساتھ اپنے اثر اور ضابطے میں لانے کی کوشش کریں اسی طریقے سے فتح حاصل کی جاسکتی ہے‘ اگر فوجیوں کو ہدایات دیتے وقت احکامات پر اچھی طرح سے عمل درآمد ہورہا ہے تو سمجھ لیں کہ فوجی فرمانبردار ہیں لیکن اگر انہیں ہدایات دیتے ہوئے‘ دیئے جانے والے احکامات کی پیروی نہیں ہورہی تو سپاہی فرمانبردار نہیں ہوسکیں گے‘ اگر احکامات قابل اعتماد ہیں اور ان پر عمل بھی ہورہا ہے تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ کمانڈر اور سپاہ کے مابین تعلق قابل اطمینان ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔