مغربی بلوچستان حوالے بی این ایم پر الزام عائد کرنیوالے اپنی بے عملی کو چھپا رہے ہیں – خلیل بلوچ

226

بلوچ قوم کے لئے ہندوستان موزوں اتحادی بن سکتا ہے اور بلوچ ہندوستان کے ساتھ ایک بلاک کا حصہ بن سکتا ہے، مغربی بلوچستان پر بی این ایم کے موقف پرکنفیوژن کاالزام لگانے والے اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ احتجاج موبلائزیشن کا صرف ایک ٹول ہے اوراحتجاج کو صرف ایک ٹول کے طورپر استعمال کریں لیکن یہ ہمارا کل وقتی کام نہیں ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے حالیہ دنوں اپنے دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔

 چیئرمین خلیل بلوچ نے بی این ایم میں ممبرشپ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ میں ممبرشپ حاصل کرنے کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔ کوئی بھی شخص بلوچ نیشنل موومنٹ کے پروگرام سے اتفاق رکھتا ہے اور ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے اور کوئی بھی ایسی سرگرمی نہیں کرتا ہے جس سے قومی پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ کو نقصان پہنچے تو اسے پارٹی کے آئینی طریقہ کار کے مطابق متعلقہ یونٹ میں تین مہینے تک بحیثیت دوزواہ شامل کیا جاتا ہے۔ اگر اس تین مہینے کی مدت تک اس یونٹ یا زون کے ذمہ دار اس دوزواہ کے پارٹی پروگرام کے لئے کردار سے مطمئن ہوتے ہیں پارٹی اسے ممبر کا درجہ دیتا ہے اور اسے ممبرشپ کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اگر خواہش مند شخص اس معیار پرپورا نہیں اترتا ہے تو بلوچ نیشنل موومنٹ اسے ممبر شپ نہیں دے سکتا۔ سرزمین یا سرزمین سے باہر، سبھی کے لئے شرط یہی ہے۔ خواہش مند شخص کے لئے پارٹی اساس اور پروگرام سے متفق ہونا لازمی ہے۔

انٹرویو میں بی این ایم ممبران کی احتجاجی مظاہروں کے علاوہ دیگر ذمہ داریوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ممبر اورعہدیدار اپنی پارٹی پروگرام کو آگے بڑھائیں۔ وہ جہاں بھی ہوں پارٹی کے نمائندے ہیں۔ اُس علاقے میں، اس سماج میں جتنی ان کی رسائی ہے، وہاں وہ اپنی پروگرام کو لٹریچر کے ذریعے، سوشل میڈیا کے ذریعے، کارنر میٹنگز کے ذریعے پہنچائیں۔ ایک پارٹی ممبر کا کل وقتی کام یہی ہے کہ وہ بلوچستان میں ہو یا بلوچستان سے باہر دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، پارٹی پروگرام، پارٹی پالیسی اپنے لوگوں اور دنیا تک پہنچائیں۔ احتجاج موبلائزیشن کا صرف ایک ٹول ہے اوراحتجاج کو صرف ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں لیکن یہ ہمارا کل وقتی کام نہیں ہونا چاہیئے۔ دو، چار مہینے بعد صرف ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت تک ہماری ذمہ داریاں محدود نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کارکنوں کی ذمہ داریاں اس سے قطعی زیادہ ہیں جو انہیں پورا کرنے ہیں۔ پارٹی میں یونٹ، زون اور ریجن، سینٹرل کمیٹی اورکابینہ کے ذمہ داریوں کا (تعین و) تشریح آئین میں موجود ہے، وہ کہیں بھی اپنی آئینی اختیارات کا استعمال کرسکتے ہیں۔ آئینی ذمہ داریوں پر کام کرسکتے ہیں لیکن وہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرسکتے۔

چیئرمین خلیل بلوچ سے مغربی بلوچستان سے متعلق بی این ایم کے موقف کے حوالے سے پوچھا کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بی این ایم کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ اور الزام ہے کہ ایران اور مغربی بلوچستان سے متعلق بی این ایم کنفیوژن کا شکار ہے۔ مغربی بلوچستان سے متعلق پارٹی پروگرام جوکہ پارٹی منشور کا حصہ ہے۔ اس میں پارٹی کا موقف واضح ہے۔ منشور کے شق نمبر دو اور شق نمبر تین اس بارے میں پارٹی کا موقف واضح کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بات میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پارٹی کا سب سے بڑا (سیاسی) گراؤنڈ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان ہے کہ وہاں پارٹی دوستوں کی محنت، جانفشانی، قید و بند، قربانی اورشہادت سے پارٹی نے موبلائزیشن کا عمل طے کیا ہے۔ ان قربانیوں اورشہادتوں نے لوگوں کو موٹیویٹ کیا ہے اورایک ایسی فضا بنائی ہے کہ بلوچ کے لئے ایک مضبوط baseلئے ایک گراؤنڈ تشکیل پاچکا ہے۔  پارٹی اپنی زیادہ طاقت و قوت اور صلاحیتوں کو وہاں صرف کرتے ہیں جہاں انہیں اس کے لئے ایک میدان بن چکی ہے یا اس پہ کام ہوا ہے۔ قوم صرف لفاظی سے آزاد نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بھی ایسے پروپیگنڈے آگے بڑھاتا ہے، اسے ہوا دیتا ہے یا ایسی منفی تاثر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے وہ صرف اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسروں پر الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں۔ جدوجہد کے لئے ایک گراؤنڈ، ایک ٹیم ورک یا سیاست کے بنیادی تقاضے اورضروریات ہیں۔ انہیں تمام یا ان میں چند ایک کو آپ پورا کرسکیں تو آپ ایک جدوجہد کرسکتے ہیں۔

خلیل بلوچ کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ایران اور امریکہ کے قضیئے میں ضروری نہیں کہ بلوچ کسی فریق کی ہمراہ داری کرے۔ خواہ وہ امریکہ ہو یا ایران، بلوچ اپنے قومی مفاد مقدم رکھتا ہے یا بلوچ کے قومی مفاد یا قومی کاز کو جہاں سے نقصان پہنچ رہا ہے یا ہماری زمین کسی کے خلاف غلط استعمال ہورہا ہے یہ کام خواہ کوئی بھی کرے، ماضی میں بلوچ سرزمین بلوچ کی منشا کے برخلاف استعمال ہوا ہے۔ بلوچ نے اس کی مخالفت کی ہے۔ بلوچ آئندہ بھی اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر ایسے معاملے پر اپنا موقف سامنے لائے گا۔ میرے خیال میں ایسے تنازعات میں ضروری نہیں کہ کسی ایک فریق کی ہمراہ داری کی جائے۔ بلوچ کی خالص قوم پرستانہ جدوجہد ہے اور قوم پرستانہ جدوجہد کے اپنے تقاضے اور ضروریات ہوتے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انشاء اللہ انہیں پورا کریں گے۔

خلیل بلوچ سے سوال کیا گیا کہ کیا بلوچ اس پوزیشن میں ہے کہ ایک سے زائد محاذ کھول سکے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ محاذ بیک وقت کھولنا بلوچ کے مفاد میں شاید نہ ہو۔ جیسا کہ آپ خطے میں امریکہ اور چین کے مفادات پر بات کررہے ہیں یا ایران کا تنازعہ ہے۔ خطے میں ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں جنہیں وہ تحفظ دینا یا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی بلوچ کے مفاد سے ہم آہنگ نہیں ہوتا ہے یا بلوچ کے مفاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اگر بلوچ کوئی محاذ کھولتا ہے تو بحیثیت ایک قوم یا قومی تحریک کے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے یہ ممکن ہے۔ اگر کسی کی مفاد ہماری قومی مفاد سے متصادم نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ ان حالات میں بلوچ ایک سے زائد محاذ کھولے ہاں البتہ جیسا کہ کوئی چین کی طرح ہماری سرزمین پر یلغار کرتا ہے، یہاں لوگوں کو بیدخل کرتا ہے، براہ راست یا دشمن کے ساتھ بلوچ نسل کشی کرتا ہے، وہاں بلوچ جس طرح پاکستان کے خلاف لڑ رہا ہے، اسی طرح چین کی توسیع پسندانہ اورجارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے انہیں بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ تواس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فیصلہ وقت و حالات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہاں نہیں دیکھا جاتا ہے کہ چین بڑی طاقت ہے، اس کے خلاف محاذ کھولنے کے سود و زیاں کیا ہیں بلکہ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا نئی محاذ کھولنا ناگزیر ہے۔ اگر ناگزیر نہیں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید بلوچ کے مفاد میں نہ ہو۔

چیئرمین خلیل سے سوال کیا گیا کہ ایک جانب امریکہ و اسرائیل دوسری جانب چین و روس اور دیگر ممالک ہیں۔ حال ہی میں مسلمان (جنرل سلیمانی) مارا جاتا ہے تواس جنگ امریکہ ایران (تنازعے) کو چین کے خلاف استعمال کرتا ہے یا پٹرول و گیس یا مذہبی جنگ ہوتا ہے، آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں مذاہب اور جنگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی مذہب ہو اور اس کا استعمال امریکہ کرے یا سعودی یا اس خطے میں ہم دیکھیں، یہاں کوئی مذہب کو وہابی ازم کے خلاف ستعمال کرتا ہے کوئی شیعہ ازم کے خلاف استعمال کرتا ہے لیکن جہاں بھی نیشنلزم کی جدوجہد رہی ہے یا نیشنلزم کی جڑیں مضبوط ہیں وہاں مذہبی منافرت کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ خواہ امریکہ ہو، پاکستان ہو، سعودی ہو یا ایران یا اگر دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہ وہاں مذہبی منافرت کو مضبوط کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جہاں بھی نیشنلزم کمزور رہی ہے وہاں مذہب بطور آلہ استعمال ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا واحد حل یہی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس بات پہ زور دی ہے کہ آج دنیا کو مذہب کے نام پر یا مذہبی انتہا پسندی کے نام پر بڑی دہشت کا سامنا ہے۔ اس میں مذہبی ریاستوں کے خالق ہوں، ان کے گاڈ فادر ہوں، مذہبی ریاست آج خود دنیا کے لئے عفریت بن چکے ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں اس کی تشخیص کرتے ہیں اس کا سدباب کرتے ہیں، اپنی غلطیوں کا ادراک کرکے اس کا ازالہ کرتے ہیں یا آگے اپنی غلطیوں کا اعادہ نہیں کرتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ قومی ریاستوں کو تسلیم کیا جائے اور انہیں تقویت دی جائے تو اس صورت میں اس عفریت کا علاج یا سدباب ممکن ہے۔ اس میں صرف امریکہ کو الزام دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک موثر ہتھیار کے طور پر ہرمذہب نے اپنے وقت میں دنیا کے امن پر اسی طرح اثرات مرتب کیئے ہیں جیسا کہ آج ہم اس خطے میں یا دنیا کے مختلف خطوں میں دیکھ رہے ہیں کہ معصوم انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے یا اپنی جارحانہ پالیسیوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار اور خالق ایک سے زائد ہیں۔ صرف ایک (فریق) کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔

خلیل بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ علاقائی طاقتوں کا جائزہ لیں تو یہاں بھارت ایک معاشی و عسکری طاقت ہے۔ چین معاشی اور بڑی عسکری طاقت ہے اور امریکہ بھی خطے میں افغانستان، مشرق وسطیٰ اور خلیج میں موجود ہے لیکن خطے میں مقابلہ، محاذ آرائی یا مفادات کی جنگ بھارت اور چین کے درمیان زیادہ نظر آتا ہے۔ بلوچ قوم کے لئے ہندوستان موزوں اتحادی بن سکتا ہے اور بلوچ ہندوستان کے ساتھ ایک بلاک کا حصہ بن سکتا ہے۔ اس لئے کہ ہندوستان بلوچ کے مفادات کو پائمال نہیں کر رہا ہے۔ چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ بلوچ سرزمین پر بلوچ نسل کشی میں پاکستان کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ اس لئے چین اپنی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ ایک فطری اتحادی نہیں سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہندوستان کی (موجودہ) شہریت کے بل کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی اثرات خطے اور خطے کی سیاست پر نہیں پڑسکتے ہیں۔ یہ ہندوستان کی اندرونی سیاسی مسئلہ ہے۔ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ خطے کے لئے تشویشناک بات بن سکے یا کوئی یہ کہے کہ اس کی ادراک بلوچ کو نہیں ہے۔ میں اسے ایسی صورت حال نہیں سمجھتا ہوں۔

خلیل بلوچ سے بلوچ جہدکاروں کے آپس میں مربوط ہوکر سرگرمیاں جاری رکھ سکنے اور اس حوالے سے بی این ایم کے پالیسی کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی میں بلوچ قومی سیاست میں سیاسی کارکن مختلف مراحل اور مختلف صورت حال کا مقابلہ کرچکے ہیں، حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ یقیناً بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق جہدکار اپنی ساتھیوں یا اپنی قوم سے رابطہ کاری کے لئے ایک پالیسی، طریقہ کار وضع کرتا ہے۔ آج کے حالات میں ہم جانتے ہیں جہدکار کھلے عام سرگرمی نہیں کرسکتے یا روابط نہیں رکھ سکتے ہیں۔ مشکلات ضرور ہیں لیکن ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی ہے یا آج سوشل میڈیا ایک ایسی وسیع میدان بن چکا ہے کہ وہاں نہ صرف ساتھی آپس میں مربوط ہوسکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی بدلتے حالات کے ساتھ ہم نے بلوچستان اور خلیج میں سیل سسٹم متعارف کرایا ہے تاکہ جہاں بلوچ آبادی زیادہ ہے یا دشمن نے Penetrateکیا ہے۔ وہاں کے مخصوص حالات میں آپسی رابطہ کاری یا تنظیم کاری میں آسانی ہو۔ یقیناً حالات اثر انداز ہوسکتے ہیں، محدود مدت کے لئے سرگرمیاں ماند پڑ سکتے ہیں لیکن یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتا ہے۔ مشکلات پیدا ہوتے ہیں لیکن جدوجہد اپنی راہیں اپنے آپ پیدا کرتا ہے۔ پارٹی، پارٹی کیڈر اپنی سوچ و فکر یا اپنی شعوری بالیدگی اور اپنی ساتھیوں کی مشاورت سے ایسی راستے تلاش کرتے ہیں اپنی ساتھیوں سے رابطہ کاری کرسکتے ہیں اور پارٹی وقتاً فوقتاً بدلتے حالات میں اپنی حکمت عملیاں تبدیل کرتا ہے اوراپنی فریضے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ سے میڈیا کے استعمال کے لیے بی این ایم کے منصوبے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی جدوجہد میں میڈیا کا کردار اہم ہوتا ہے۔ دوستوں کی تجزیہ اور مشورے سے میڈیا بلیک آؤٹ کے سدباب کے لئے یا مقابلہ کرنے کے لئے بلوچ نیشنل موومنٹ نے 2008 اور 2009 سے سنگر پبلی کیشن کی بنیاد رکھا اوراسے ایک تسلسل دے دی۔ دوستوں کی (اس کام میں) مہارت میں نشوونما کے باعث یہ کام آج تک جاری ہے۔ زرمبش پبلی کیشن بھی میڈیا کا ایک حصے کی احاطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یا آج سوشل میڈیا کا دور ہے سینکڑوں کے حساب سے دوست ٹیوٹر یا فیس بک میں یا سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کے ذریعے پارٹی کا موقف اور پالیسی دنیا تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ساتھی مختلف مراحل یا سرد وگرم سے گزر کر یورپ یا دیگر ممالک میں پہنچ چکے ہیں۔ وہ پارٹی سفیر کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ وہاں کے مقامی باشندوں، سول سوسائٹی کو بلوچستان کے حالات، بلوچستان میں پاکستان کے جرائم سے باخبر رکھ سکتے ہیں یا اکیس ویں صدی میں بلوچستان کے لوگ کس طرح جی رہے ہیں یا کیسی کرب سے گزررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ نے ہمیشہ اپنے کارکنوں پر زوردیا ہے کہ وہ میڈیا کو مثبت اورقومی مفاد کے لئے استعمال کریں اور قومی جدوجہد کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے استعمال کریں۔ میرے خیال میں آج اس خطے یا دنیا میں کہیں بھی تحریکوں کو دبانے یا کچلنے کی کوشش ہوتا ہے، وہاں سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔  اس (قوموں کی دبی) آواز کو دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ میڈیا کے جتنے ذرائع ہیں ان پراپنی صلاحیت، وسائل کے مطابق پائیدار بنیادوں پر کام کرسکیں۔ دوست اس پر کام کررہے ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ یہ وسیع میدان ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جتنا زیادہ ہو سکتا ہے اسے (سوشل میڈیا) ہم قومی کاز کے لئے بروئے کارلائیں۔