حسن ناصر، گلالئی اسماعیل اور سانگ سو – مشتاق علی شان

387

حسن ناصر، گلالئی اسماعیل اور سانگ سو

تحریر: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی 60 سال کاعرصہ گزرا جب لاہور کے شاہی قلعے میں ایک بندوق بردار فاشسٹ فوجی آمر ایوب خان کے دور میں کراچی کے ایک انقلابی نوجوان حسن ناصر کو سولی کا تحفہ دیکر اس کی لاش غائب کر دی گئی. اس کا جرم یہ تھا کہ وہ دھرتی اور اس کے ذرائع پر انسانوں کے ایک جیسے ادھیکار کی جدوجہد کا مجرم تھا. وہ فوجی بوٹ پالش کرنے والوں، جنرلوں کےکفش برداروں کی بجائے پسینے سے تر جسموں والے مزدوروں اور گرد سے اٹے چہروں والے ہاریوں، کسانوں کی قطار میں شامل تھا.

برسوں گزر گئے حسن ناصرشہید سے نذیر عباسی شہید اور حمید بلوچ شہید تک جس نے بھی قومی، طبقاتی جبر کے خلاف ، جمہوریت کے لیے اور مذہبی انتہا پسندی اور سامراجیت کے خلاف آواز بلند کی اسے پیس کر سرمہ بنا دیا گیا.
بلوچستان، سندھ سے لیکر پختونخوا اور کشمیر، گلگت بلتستان تک اس قتال کے بعد جبری گمشدگیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے. ملک بھر میں حقیقی سرکار سے مختلف نکتہ نظر یا بیانیہ رکھنے والے غدار ٹھہرے.
اس کی حالیہ مثال پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) ہے. جس کے مردان کے نوجوان آرگنائزر حسن ناصر کو آج مردان میں 12 تاریخ کے بنوں جلسے کی کمپین چلاتے ہوئےدن دیہاڑے، برسرعام خلائی مخلوق نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا. تحریک کے ابتدائی دنوں میں جب حسن ناصر بسلسلہ روزگار سندھ کے شہر ٹھٹھہ اور بدین میں مقیم تھے، اس وقت بھی انھیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر زبردستی سندھ سے نکال دیا گیا. مردان جانے کے بعد حسن ناصر PTM کے ایک انتہائی متحرک مساعی پسند کے طور پر ابھرے. حسن ناصر کا جرم یہ ہےکہ وہ اپنے لوگوں کے لیے زندگی کا متمنی ہے، اپنے وطن کے لیے امن، محبت اور خودمختاری کا متمنی ہے، مظلوموں کے لیے، جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے. وہ ترقی پسند، وطن پرست فکروسوچ کا مالک ہے.

لیکن پاکستان کے فاشسٹ فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان سے لیکر آج تک کے بندوق برداروں کا وہی چلن ہے لیکن یاد رہے آپ ہمارے حسن ناصروں کو لاہور کے شاہی قلعے میں قتل کر کے ان کی لاشیں تک غائب کر سکتے ہیں، آپ ہمارے آج کے حسن ناصروں کو زندہ غائب کر سکتے ہیں لیکن ان کے فکر وعمل پر قدغن لگانا آپ کے بس کی بات نہیں.
آج بچہ بچہ جانتا ہے اور چلا چلا کر ببانگِ دہل یہ کہتا ہے کہ
“یہ جو دہشت گردی ہے
اس کے پیچھے وردی ہے”
“یہ جو نامعلوم ہے، یہ ہم کو معلوم ہے.”

دوسری جانب سوشل میڈیا پر PTM کی جلاوطنی پر مجبور کیے جانے والی رہنما محترمہ گلالئ اسماعیل اور ان کے والد محمد اسماعیل کے خلاف سوشل میڈیا سے لیکر ہر ممکنہ ذرائع تک ایک پروپیگنڈا مشین کے توپ دہانے کھلے ہوئے ہیں. را اور این ڈی ایس اور اس سے قبل خاد کے ایجنٹ ہونے کے الزامات تو خیر سے ہر انقلابی، ترقی پسند، وطن پرست، جمہوریت پسند پشتون پر لگتے رہے ہیں لیکن بوٹوں والی خاکی سرکار سے زیادہ اس کے وفادار گل خانوں اور شعوری بوٹ پالشیوں نے جو طوفان بد تمیزی برپا کر رکھا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے.آج اگر پنجاب کا ضمیر حبیب جالب زندہ ہوتا تو گلالئی اسماعیل کے لیے بھی اس طرح کی نظم کہتا
سامنا کیا کرے گی دشمن کا
جو سپاہ عورتوں سے ڈرتی ہے
صورتحال یہ ہے کہ پہلے PTM کی “ناکامی” کے ڈول پیٹے گئے جسے PTM کے مجوزہ بنوں جلسے(12 جنوری ) نے ماتمی دھنوں میں تبدیل کر دیا ہے.
حضور ِ اگر بقول آپ اور کے سارے شامل باجوں کے پی ٹی ایم ناکام ہو چکی ہے تو پھر آپ کی یہ اوچھی حرکتیں کس خوف کی غمازی کرتی ہے؟. آپ کے بھاری قلعے کیوں لرزہ براندام ہیں؟. آپ کے سارے اعلانیہ و غیر اعلانیہ بوٹ پالشیوں اور تسمہ باندھنے والوں کے پیٹ میں کاہے مروڑ ُاُٹھ رہے ہیں؟.
دراصل آج کی اس ساری صورتحال کے متعلق PTM رہنما منظور پشتین کچھ روز قبل ہی کہہ چکے ہیں کہ ”
اس بار ریاستی مشینری انتہائی شدت کے ساتھ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کرے گی.
اپنے مکمل حربے استعمال کرے گی، مختلف شکلوں میں غلط فہمیاں اور پروپیگنڈے پھیلانے کی کوشش کرے گی.
لیکن تحریک (PTM) کے بغیر زندگی ہم پشتون دیکھ چکے ہیں.
وہ بے اتفاقی کے دن ہم بھولے نہیں.

اپنے وطن کے گزشتہ اور تحریک کے بعد کے حالات ہم پشتون اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں. اس لیے ان کے پروپیگنڈے، زور اور شور ناکام رہے گا. ”
یاداش بخیر کوئی 80سال کا عرصہ گزرا چین میں بھی ایک فاشسٹ جنونی چیانگ کائی شیک کو اپنی وردی پوش غنڈہ سپاہ کا، اپنی مہیب قوت کابڑا زعم تھا. اسی چیانگ کائی شیک کی ایک فوجی عدالت نے جب چین کے ایک انقلابی شاعر سانگ سو کو بیس سال قید کی سزا کی پرچی پکڑائی تو اس نے کاغذ کے اس پرزے کو اچھالتے ہوئے کہا تھا کہ “ہو سکتا ہے کہ کاغذ پر لکھی اس تحریر کے باعث میں بیس سال تک سورج کی شکل نہ دیکھ سکوں، لیکن کیا تمھارا یہ بجلی کی سی تیزی سے اپنی موت کی جانب بڑھتا فرسودہ نظام بیس سال تک رہ سکے گا؟.”

ہم تاریخی اور جدلی مادیت سے وجدان پانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ تاریخ خود کو کبھی نہیں دہراتی لیکن تاریخ آمروں، غاصبوں، ظالموں، قبضہ گیروں اور استحصالیوں کو اپنے آئینے میں ان کا انجام ضرور دکھاتی ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔