بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نزیر بلوچ نے کہا ہے کہ جامعہ بلوچستان جنسی ہراسگی اسکینڈل سے متعلق حقائق کو تاحال سامنے نہیں لایا گیا نہ ہی اب تک ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکی، معاملے کو مکمل طور پر دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طلباء کے احتجاج کے حوالے سے ہائیکورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ معاملے کو عدالت پر چھوڑ دے ملزمان کو عدالت سزا دی گئی اسمبلی کمیٹی کی جانب سے ایف آئی آر کے سفارش کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی ایف آئی آر درج نہ ہوسکی نہ ہی ذمہ داران کے خلاف کاروائی ہوسکی، کسی کو معطل کرنے کو کسی صورت سزا تصور نہیں کی جاسکتی ملزمان کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔
نزیر بلوچ نے کہا کہ یونیورسٹی اسکینڈل بلوچستان کے قومی غیرت ننگ و ناموس اور خواتین کے تعلیم پر حملہ ہے، طلباء نے عدالتی یقین دہانی پر احتجاج کو وسعت نہیں دی تھی لیکن اس اہم مسئلے پر کسی صورت خاموش نہیں رہنگے احتجاج کے سلسلے کو بلوچستان بھر میں وسعت دی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا ہے جامعہ بلوچستان میں بلوچستان بھر سے طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے آتے ہے پہلے طلباء پر تعلیمی راستے طاقت کے استعمال، اغواء نما گرفتاریوں کے ذریعے بند کی گئی، شعوری سرکلز پر پابندی لگائی گئی، فیسوں میں اضافہ کرکے داخلوں میں کمی کی گئی لیکن تمام مشکلات کے باوجود بلوچ طلباء و طالبات نے شعوری بنیادوں پر تعلیمی عمل کو جاری رکھا تو جنسی ہراسگی کے ذریعے ادارے سے والدین کا اعتماد کو ختم کیا گیا تاکہ تعلیم کے دروازے بلوچ طالبات پر ہمیشہ کے لئے بند کی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایس او کسی صورت ان نوعیت کے اقدامات کی اجازت نہیں دے گی، جلد تمام اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتوں کے مشاورت سے شدید احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔