جنگی حکمتِ عملی | قسط 24 – جنگ کرنا

208

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا
قسط 24: – جنگ کرنا

جنگ کی سرگرمی اس وقت شروع کی جائے جب چار گھوڑوں والے ایک ہزار بڑے رتھ اور ایک ہزار ذرہ پوش فوجی سپاہی ہوں‘ اشیائے خوردونوش اور جنگی سامان کو ایک ہزار ”لی“ کے فاصلے تک لے جانے کی آمدورفت میسر ہو‘ جنگی محاذ اور ملکی ضروریات کے مطابق اخراجات‘ سفیروں اور مشیروں کی تفریح کا انتظام ہو اس کے علاوہ گوند ‘ہتھیار‘ رتھ اور ذرہ خریدنے جتنی رقم بھی موجود ہو جو اندازاً ایک ہزار سونے کے سکے روزانہ ہوسکتی ہے۔ اتنے خزانے کے بعد جنگی محاذ پر ایک لاکھ فوج روانہ کی جاسکتی ہے۔

جنگ کا اہم مقصد تیز رفتار فتح ہوتی ہے‘ اگر جنگ طویل ہوگئی تو ہتھیار بے کار اور فوجی حوصلہ ہار بیٹھیں گے‘ فوج کی طرف سے شہروں پر حملہ کرنے سے فوج کی قوت کو نقصان پہنچے گا‘ جنگ کی طوالت سے ملکی وسائل کم پڑجاتے ہیں جب ہتھیار بے کار‘ امنگ اور حوصلے سرد‘ طاقت ختم اور خزانے خالی ہوجائیں گے تو آپ کے ہمسایہ حکمران آپ کے ان مسائل سے فائدہ اٹھائیں گے‘ اس کے نتیجے میں برآمد ہونے والے خراب نتائج کا سامنا کوئی بھی دانشمند حکمران نہیں کرپائے گا۔ ہم نے جنگ میں بے وقوفی سے کئے گئے تابڑ توڑ حملے توسنے ہیں لیکن یہ نہیں سنا کہ دانشمندی اور خلوص نیت کے ساتھ کئے گئے حملوں کے نتیجے میں جنگ طویل ہوگئی ہو۔ طویل جنگ سے کسی بھی ملک کو فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اس لئے جنگی کمانڈر فوجی ترتیب میں موجود گتھیوں کو سلجھا نہیں سکتے اور ایسی فائدہ مند باتوں کو بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

جو کمانڈر جنگ کی شروعات کرنے کے ماہر ہوتے ہیں انہیں فوج کی نئی بھرتی اور فوجی سامان کی دوبار روانگی سے زیادہ ضرورت نہیں پڑتی ہے‘ ایسے کمانڈر فوجی سامان تو اپنے ملک سے ہی ساتھ لے کر چلتے ہیں لیکن اشیائے خوردونوش دشمن ملک سے ہاتھ کرلیتے ہیں۔ یوں فوج کو اشیائے خوردونوش کا اچھا ذخیرہ ہاتھ آجاتا ہے۔

جب جنگ کے باعث ملک کنگال ہوجاتا ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ فوجی جنگ کے میدان کی جانب رسد کا سامان زیادہ دور تک لے جانے کے محتاج ہوجاتے ہیں جن علاقوں میں فوج پہنچتی ہے وہاں عمومی استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں‘ قیمتوں میں اضافے کی صورت میں دولت عوام کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔ ان حالات میں عوام پر کمر توڑ محصولات لاگو کردیئے جاتے ہیں‘ ملک کے کنگال ہوجانے اور طاقت کے ختم ہوجانے کے باعث گھریلو استعمال کی اشیاء کا معیار گرجاتا ہے اور لوگوں کی آمدن کا 70 فیصد حصہ ایسی چیزوں پر خرچ ہوجاتا ہے‘ جہاں تک سرکاری اخراجات کا تعلق ہے تو اس کی کل آمدن کا 60 فیصد ٹوٹے ہوئے رتھوں‘ کمانوں‘ نیزوں‘ تیروں‘ ڈھالوں کی مرمت‘ تھکے ماندہ گھوڑوں اور گاڑی کھینچنے والے کمزور بیلوں کی خریداری پر خرچ ہوجاتا ہے۔

اس لئے ایک دانشمند جرنیل کو لشکر کی خوراک کیلئے دشمن ملک پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ دشمن ملک سے ہاتھ کیا گیا ایک ”ژونگ“ کا مال غنیمت اپنے ملک کے بیس ”ژونگ“ کے برابر ہوگا…… اسی طرح دشمن ملک میں جانوروں کے چارے کیلئے خرچ ہونے والی ایک ”شی“ (Shi) اپنے ملک کے بیس ”شی“ کے برابر ہوگی۔ دشمن کو شکست دینے کیلئے اپنے فوجی سپاہیوں کا دل بڑھاتے رہنا چاہئے اور ان کے حوصلوں کو بلند رکھنا چاہئے‘ نیز دشمن کے خلاف غصہ پیدا کرنے کیلئے ان میں ایسی صورتحال پیدا کی جائے‘ یہ بھی اعلان کیا جائے کہ جوفوجی سپاہی دشمن کا زیادہ سے زیادہ مال غنیمت ہاتھ کرے گا اسے بڑا انعام دیا جائے گا۔

اگر رتھوں کی لڑائی میں دشمن کے دس رتھ بھی ہاتھ لگ جاتے ہیں تو اس سپاہی کو انعام سے نوازا جائے جس نے سب سے پہلے دشمن کا رتھ ہاتھ کرلیا ہو۔ دشمن کے جھنڈوں اور نشانوں کو اپنے جھنڈوں اور نشانوں میں تبدیل کریں‘ دشمن سے ہاتھ آئے ہوئے رتھوں کو اپنے رتھوں سے ملا کر استعمال میں لائیں۔

جنگی قیدیوں کا بہت خیال رکھا جائے اور ان کی حفاظت میں کوئی کمی نہ رہنے دی جائے‘ ان باتوں کو ”جنگ جیتنا اور طاقتور ہونا“ کہا جاتا ہے‘ اس لئے سب سے زیادہ قیمتی چیز وہ فتح ہے جو تیز رفتاری سے حاصل کی جائے جو جرنیل فوجی ترتیب اور صف بندی کا ماہر ہوتا ہے اسے عوام کے مقدر کا مختار اور قوم کی تقدیر کا امین کہا جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔