کتاب دوستی اور شعور – امجد دھوار

737

کتاب دوستی اور شعور

تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

کتاب تحریری شکل یا تصاویر کی شکل میں معلومات کو ریکارڈ کرنے کا ایک ذریعہ ہے، عام طور پر کتاب بہت سے صفحات پر مشتمل ہوتا ہے ایک اچھی کتاب آپ کا دوست بن کر ساری زندگی آپ کی اخلاقیات کو سنوارتی رہتی ہے۔ ایک بہتریں کتاب ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، اپنے آپ سے، اپنے ارد گرد سے، اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو شعور کہا جاتا ہے، جسے انگریزی میں Consciousness کہا جاتا ہے اور طب و نفسیات میں شعور وعقل کے اس کیفیت کو وہ کیفیت کہا جاتا ہے جس میں خود آگاہی، و دانائی پائی جائے اور انسان کی روح ہی اس کا شعور ہے۔

ہمارے ہاں، ہمارے اردگرد، ہر طرف ہر کوئی یہی کہنے کی کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ ایک کتاب دوست ہے، مگر ہم جو خود کو کتاب دوست سمجھتے ہیں، جو لائبریری اور دوستوں سے موٹی موٹی کتابوں کی فرمائش کرتے ہیں، مگر پھر بھی ہم میں وہی جہالت باقی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم اچھی اچھی اور زندگی بدلنے والی کتابوں کی جگہ وہی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، جو ہمیں جہالت کی طرف لے جاتے ہیں۔
کیونکہ ہمارے ہاں ہم سب مطالعے کے باوجود بھی ایک اچھا فیصلہ نہیں کر پاتے، بس ہم پھر بھی وہی جہالت میں پھنسے رہتے ہیں۔ کتاب ہوتی ہے آپ کو آپ کے روح کو بدلنے کیلئے، آپ میں شعور لانے کیلئے، کسی کا ہمدرد بننے کیلئے، کسی کا عزت کرنے اور حق کی بات کرنے کیلئے، ہماری طرف تو روز کتابی میلے لگنے کے باوجود بھی ہم کتابوں کا صحیح حق ادا نہیں کرتے، کتابی میلے لگتے ہیں، خاص کر جوانوں میں ایک روشنی کی کرن جاگ اٹھتی ہے کیونکہ کتاب دوستی ہی ایک واحد ذریعہ ہے جو آپ کو حقائق سامنے لانے اور اور حق کی بات کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، مگر ہمارے ہاں بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں صرف اور صرف طلباء اور طالبات اپنے اپنے ذاتی مفادات اور چھوٹے چھوٹے مقاصد کیلئے کتاب دوستی کا سودا کرتے ہیں اور غلط رستہ اختیار کرتے ہیں، جو ان کی سب سے بڑی بے شعوری ہے۔

کتاب دوستی سے ایسے ایسے کردار ہمارے آس پاس موجود ہیں، جو ہمارے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لئے مثال ہیں اور دوسری طرف کچھ ایسے لوگ ہمارے بیچ موجود ہیں۔ جو خود کتاب دوستی کا ڈھونگ رچا کر صادق و جعفر جیسے دجالوں کے اشاروں پر کتابوں سے دوستی رکھتے ہیں اور ان کے قلم صرف اور صرف یک طرفہ ہوتی ہیں، جو روز ہمارے ہاں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے جو قومیں کتاب دوستی اور اس کے ساتھ ساتھ صحیح فیصلے کو ترجیح دے چکے ہیں، ترقی و کامیابی اور خوشحالی ان کے انتظار میں رہتی ہے، دنیا میں افریقہ کے نیلسن منڈیلا امریکہ کے ابرہام لنکن کی مثالیں موجود ہیں جن کو صلاحیتیں بھی کتاب دوستی سے ملی ہیں، جو دنیا کے لئے مثال بن چکے ہیں۔

ہمارے یہاں تو کتابیں خود بہ خود ڈاکٹر منظور بلوچ کی شکل میں ہمارے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ ہماری قوم اب ایک ایسے مقام پر ہے جہاں اس کو کتاب دوستی کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہے۔ جب ہم ایک کتاب پڑھنے کا سوچتے ہیں، تو کتاب پڑھنے سے پہلے ہم پہ یہ فرض بنتا ہے کہ اگر ہم اس کتاب کے ایک ایک لفظ پہ عمل کریں اور یہی ہی ہمارا شعور ہو گا، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر کوئی صرف اور صرف اپنے مقصد کی کتابیں پڑھتا ہے اور ان سب کتابوں کو خود سے دور رکھنا چاہتا ہے، جو ہمارے لئے بنی ہیں اور جن کی ہمیں اس کٹھن اور سخت حالت میں اشد ضرورت ہے اور یہ ہمیں پکار رہی ہوتی ہیں اور وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ان کتابوں کا مطالعہ کریں جو ہمیں پکار رہی ہیں اور ان کتابوں کو پڑھنے کے ساتھ اپنے ضمیر کو بھی جھنجوڑتے ہیں کہ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد ہمیں اپنے آپ میں کیسے بدلاؤ لانا ہے اور جو قدم ہم روز اٹھا رہے ہیں، کیا یہ ہمارے حق میں ہے یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کل کو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں لغور جیسے الفاظ سے پکاریں اپنے آنے والے نسلوں کے سامنے ہم نہ رہیں بھی تو وہ ہمارے ناموں پہ ہمارے کرداروں پہ فخر کریں۔

ہمیں کتاب دوستی کہ ساتھ ساتھ ان کے تحت صحیح فیصلے بھی لینی چاہئیں، جہاں ہماری قوم، ہمارے خاک کو ہماری ضرورت ہو تو وہاں لبیک کریں، جہاں بھی کوئی سخت گھڑی میں ہماری ضرورت ہو ہم سینہ تان کر گھڑے رہیں، کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں، تب جا کے یہ کتابیں اور وقت ہم پہ فخر کرینگے اور ہمیں سینے سے لگا کر ہمیں خود میں تحریر کرینگے، اگر ہم نے کتاب دوستی کو مزاق سمجھا تو ہمارا انجام بھی عبرت ناک ہوگا، اپنے قوم، اپنے نام، اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیں کتابوں کہ ساتھ وفادار رہنا ہو گا۔ ان کی کہی ہوئی باتوں پر عمل کرنا ہوگا، تب جاکے ہم ایک روشن مستفبل کے مالک ہونگے اور اسی عمل، اسی کتاب کی بدولت ہم مرنے کے بعد بھی انہی کتابوں میں ایک تاریخ بن کے زندہ رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔