سن زو کی کتاب ”جنگی فن“میں موجود بعض متروک خیالات

829

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا

قسط 22 | گیارہواں باب – سن زو کی کتاب ”جنگی فن“میں موجود بعض متروک خیالات

وقت کی رفتار کی صدا کے ساتھ سچ بھی لگا تار پھلتا پھولتا اور ترقی کرتارہتا ہے۔ ماؤزے تنگ نے اپنی تصنیف ”آن پر یکٹس“ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ”دنیا میں معروضی سچائی کا تغیر و تبدل سے بھرا سفر لامحدوداور نامختتم ہے‘ اسی طرح آدمی کا سچ کی پہچان کا سفر بھی مسلسل اور طویل ہے‘ اگر اس نقطہ نظر کو ذہن میں رکھ کر سن زو کی کتاب جنگی فن کا تجزیہ کیا جائے تو ہم ضرور صحیح نتیجے پر پہنچ پائیں گے۔

عام طور پر قدیم علمی تصانیف کو ملا کران کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ کسی بات یا اصولوں پر جم جانا انہیں سچ جھوٹ سمجھنا غلط نہیں ہے کیونکہ ان پر وقت اور ایک خاص طبقے کی جانب سے پابندیاں تھونپی گئی ہیں‘ اگر قاری مصنف کے عہد کے پس منظر میں جاکر حالات کا اچھی طرح تجزیہ کرے گا تو قدیم عہد کی لکھی گئی اس کتاب کو اچھی طرح سمجھ پائے گا۔

سن زوکی کتاب ”جنگی فن“ میں یہ کمی ہے کہ اس ماہر نے جنگ کے اہم محرکات و اسباب پر بحث نہیں کی ہے۔ محققین کے جمع کردہ اعداد وشمار کے مطابق سن زو کے ”بہاروخزاں“ کے مقامی دور میں چار سو سے پانچ سے تک جنگیں لڑی جاچکی تھیں۔ سن زو کے بعد جلد ہی مینشیسMenciousنے جنم لیا جو چین کا ایک معروف عالم تھا‘ اس نے اپنے عہد کی جنگوں سے متعلق رائے زنی کی تھی جسے چین میں بڑی پذیرائی ملی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ ”بہار وخزاں نامی دور میں ہونے والی جنگیں بے انصافی پر مشتمل تھیں۔“ کیا اس کا یہ نتیجہ صحیح ہے؟ اس کا جواب ہے…. ”نہیں!“

معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بڑی طاقتوں کے مابین ہونے والی جنگیں انتہائی نا انصافی پر مبنی تھیں لیکن چھوٹے ممالک نے اپنے دفاع کے لئے بڑی طاقتوں کے خلاف جو جنگیں کی تھیں ان کا تعلق جارحیت ناانصافی اور بدنیتی سے ہے‘ مثال کے طورپر ”سنگ“ ایک چھوٹا سا ملک تھا جس پر دوبڑی طاقتوں ”جن“ اور ”چو“ نے حملہ کردیا تھا‘ اشیائے خورد و نوش ختم ہوگئیں‘ لوگوں نے ذبح کرکے کھانے کے لئے اپنے بچے ایک دوسرے سے بدل لئے تھے‘ یوں ”سنگ“ نے حملہ آوروں کے خلاف جنگ کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے تھے۔

زوژئان(Zou Zhoun) نامی تاریخی کتاب میں بعض حقائق لکھے ہوئے ہیں‘ چھٹی سے ساتویں صدی صدی ق۔م میں غلاموں نے ہلچل مچائی‘ ان سب میں ”کن“ کی بغاوت مشہور ہے جو غلاموں نے شہر کی دیواریں اٹھانے کے خلاف کی تھی‘ اس کے علاوہ ”ژین“ کی بغاوت مشہور ہے جو وہاں کے غلاموں نے حکمران طبقے کے خلاف کی تھی۔ کیا ان غلاموں نے اپنے مالکوں اور حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کرکے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جس سے کہ طبقاتی تضاد ابھر کر سامنے آئے تھے؟ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایسی باتین سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ میں نظر نہیں آتیں‘ اسے ایک بڑی کمزوری سمجھا جاسکتا ہے‘ ایسا اس لئے کیا گیا تھا کہ ایسے حقائق سے فوجیوں کو بے خبر رکھا جاسکے۔

یہ ظلم پسند حکمت عملی ہے اور سن زو کی کتاب میں یہ ایک بڑا عیب ہے لیکن اس نے یہ ضرور لکھا ہے کہ ”فوجی سپاہیوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرو انہیں شریفانہ انداز میں حکم دو اور سخت قسم کے نظم و ضبط کے ذریعے انہیں ضاطے میں رکھو۔“ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فوجی سپاہیوں کو عزت و احترام دینے کے نقطۂ نظر کو عام کررہا تھا‘ اس کے ساتھ فوج میں نظم و ضبط پر بہت دھیان دے رہا تھا لیکن اس نے جنگ کے دوران جو کیا تھا وہ اس کے اس نقطہ نظر کے بالکل خلاف تھا‘ وہ اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ”فوجی کمانڈر کو چاہئے کہ جنگی منصوبہ بندی کو فوج کے عام سپاہیوں سے خفیہ رکھے‘ وہ اپنے فوجی سپاہیوں کو ایک چروا ہے کی طرح کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر بھیڑ بکریوں کی طرح دوڑاتا ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کہا جانا چاہتا ہے‘ کمانڈر کو چاہئے کہ جب اس کی فوج کسی بلندی پر پہنچے تو نیچے سے سیڑھی کھینچ لے۔“ اِس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مزدور طبقے کے لئے اُس کے خیالات رجعت پسندانہ تھے۔

اس کتاب میں دوسری کمی یہ ہے کہ اس نے عسکری جرنیل کو کلیدی اہمیت دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”جو جرنیل عسکری صف بندی میں دانشمند اور کھرا ہوتا ہے وہی قوموں کی تقدیر کا امین اور عام آدمی کے مقدر کا مختار کل ہوتا ہے‘ اسی نقطہ نظر سے متصل اس کا ایک اور بیان بھی ہے کہ کبھی کبھار ایسے مواقع بھی آجاتے ہیں کہ بادشاہوں کے حکم کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔“ ایسے کم جرنیل دیکھنے میں آئیں گے جو اس نقطہ نظر سے متاثر ہوئے ہوں گے اور اس اصول کے تحت حاکمِ وقت کے احکامات کو ماننے سے انکار کردیا ہو کیا۔ اس کا یہ نقطہ نظر صحیح ہے کہ عوام کی طرف سے کی گئی جنگ ہمیشہ سیاست سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایسی کوئی مثال ہی نظر نہیں آئے گی کہ جنگ اور سیاست کا کوئی باہمی تعلق ہی نہ ہو اگر جنگ کے دوران مستقل مفادات سے لاپرواہ ہوکر مقامی مفادات کو اہمیت دی گئی تو ایسا نقصان ہوگا کہ جس کا ازالہ کرنا ممکن ہی نہیں ہوگا۔

ان باتوں پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ قدیم زمانے میں مواصلاتی ذرائع کم اور دقت طلب ہوتے تھے اور جنگی محاذوں پر حالات تیزی سے تبدیل ہوتے رہتے تھے اور درست معلومات نہیں مل پاتی تھی اس لئے تبدیل شدہ حالات کا سامنا کرنے کے لئے کمانڈر اندازوں سے کام لیتا تھا۔ یہ بحث واقعی اپنی جگہ صحیح ہے‘ موجودہ دور میں حالات بالکل تبدیل ہوچکے ہیں اب ٹیلی کمیونیکیشن‘ ٹیلی ویژن اور خودساختہ سیاروں کے ذریعے کمانڈر کو فوری معلومات مل سکتی ہے اور وہ جنگ کے میدان میں ہونے والی فوری تبدیلیوں کا بروقت سامنا کرسکتا ہے‘ اس لئے جنگ کی نئی صورتحال کے مطابق وہ اپنی فوج کو ازسر نوترتیب دے کر جنگی چال کا آغاز کرسکتا ہے‘ ایک کمانڈر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ مقامی مفادات کے لئے سپریم کماندڑ کے احکامات کی نافرمانی کرے۔ قدیم عہد کی جنگ کے عام اصول کے نقطہ نظر سے سن زو کا نظریہ ہے کہ ایسے کئی مواقع بھی آجاتے ہیں جب کہ ملک کے بادشاہ کے احکامات کی تعمیل کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ سن زو کا یہ اصول اب شروع ہوچکا ہے۔


سن زو کی متضاد باتیں

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس کے بعض اصول انتہائی سخت اور مشینی ہیں‘ مثال کے طور پر اس کا کہنا ہے کہ ”جنگ سے واپس ہو کر گھروں کو آنے والے فوجیوں کا دوبارہ جنگ کی جانب رخ نہ موڑا جائے‘ گھیرے میں آئی ہوئی دشمن فوج کو بھاگنے کیلئے راستہ دیا جائے اور شکست خوردہ یا مایوس دشمن سے بلاوجہ زیادتی یا خوامخواہ دباؤ نہ رکھا جائے۔“ اس کے یہ اصول ”جنگی فن“ نامی اس کی کتاب میں بیان کردہ کئی اصولوں کے بالکل متضاد ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا مشہور جملہ ہے کہ ”بلند حوصلہ دشمن کو چھیڑنے سے احتراز برتا جائے اس پر حملہ تبھی کیا جائے جب دیکھو کہ دشمن سست اور کاہل پڑا ہے اور فوج وطن واپس ہونے کو تیار بیٹھی ہے۔“ یہ بات اس کے مذکورہ بالا خیال کے بالکل متضاد ہے‘ اس کے پچھلے اصولوں میں کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں اور وہ بالکل صحیح ہیں۔

سن زو اپنی کتاب جنگی فن کے باب ”جارحیت کی حکمت عملی“ میں بتاتا ہے کہ ”جب آپ دشمن سے دس گنا زیادہ ہوں تو دشمن کا گھیراؤ کرلیں‘ اسے تباہ کردینے والی جنگ کہا جاتا ہے‘ اس کا یہ بیان بالکل ہی سچا اور کھرا ہے لیکن اگر آپ دشمن فوج کے چاروں اور گھراؤ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو اسے بھاگنے کا موقع دینے کے لئے کوئی راستہ نہ چھوڑیں‘ ہوائی ہائی کے محاذ پر اگر پی ایل اے دشمن کو بھاگنے کے لئے راستہ دیتی تو یہ چیتے کو بل کی جانب لوٹنے کا موقع فراہم کرنے کے برابر تھا‘ کیا ایسا کرنے سے پی ایل اے دشمن کو ختم کرنے کا موقع گنوانہ بیٹھتی؟ گھیرے میں آنے والے دشمن کو بھاگنے کے لئے ’ضروری راستہ‘ دینا نہایت سخت سمجھا گیا کیونکہ اس میں ’ضرور‘ کا لفظ دیکھنے میں آتا ہے لیکن گھیرے میں آئے ہوئے دشمن کو راستہ دینا تبھی ضروری سمجھا گیا ہے جب کہ آپ جنگ کو جلدی ختم کرنا چاہتے ہیں‘ دشمن کو دھوکہ دے کر مناسب جگہ پر اس پر اچانک خطرناک حملہ کرنا چاہتے ہیں۔

جہاں تک ”جان جو کھم میں ڈالنے والے دشمن پر زیادہ زور نہ رکھو“ کے اصول کا تعلق ہے تویہ ایک لطیفہ جیسی بات ہے‘ اس کے لئے ماؤزے تنگ کی شاعری میں دوسطریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو زیادہ مناسب ہیں…..
”ہمیں اپنی پوری قوت کے ساتھ اور نقصان سے بچنے کیلئے بھاگتے ہوئے دشمن کا پیچھا کرنا چاہئے اور لومڑ جیسے ژیا نگ یو فاتح کو خوامخواہ شہرت نہیں ملنی چاہئے۔“

سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ آج سے دو ہزار کے عرصے سے پہلے لکھی گئی ہے جس میں بیان کئے گئے کئی اصول اور ضابطے عملی طورپر سچے اور آفاقی حیثیت کے حامل ہیں‘ اس لئے یہ کتاب چینی عوام کے لئے ایک بے مثال ورثے کی حیثیت رکھتی ہے اور جو مستقبل میں ہونے والی پیش قدمیوں کے خلاف جنگ لڑنے کے اصول بتاتی ہے۔

یہ کتاب نئے پیدا ہونے والے جاگیر دار طبقے کیلئے لکھی گئی تھی اس لئے اس میں بعض خامیاں پائی جاتی ہیں‘ اس کے بعض اصول رجعت پسندانہ بھی ہیں‘ ایسا وقت کی کمی اور مصنف کے شخصی سماجی رتبے کی وجہ سے ہوا ہے‘ تحقیق کے دوران اس کتاب کیلئے خیال اور خامیوں کو ضرور نظر میں رکھا جائے۔ یہی طریقہ ہے جس سے عسکری سائنس کو ترقی مل سکتی ہے اور نت نئے خیالات بھی جنم لے سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔